شاہد جمیل مہناس،پنڈی پوسٹ/آج کا یہ کالم گھر گھرکی کہانی ہے مگر یہ سچی اور اُنس و محبت میں بندھی ہوئی داستان ان گھرانوں سے متعلق ہے جن گھرانوں میں بسنے والے افراد ایک دوسرے کے لیئے اپنا سب کچھ قُربان کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ والد کی وفات کے چند دن بعدمیری ملاقات چیئر مین یونین کونسل ساگری راجہ شہزاد یونس سے ہوئی۔ میں نے پوچھا شہزاد بھائی ابّا جی کی کوئی بات جو آپکو یاد رہ گئی ہو۔ شہزاد بھائی بولنے سے پہلے مُسکرائے اور مسکرانے کے فوراََ بعد شہزاد بھائی کی پلکوں پر شفاف موتی آنسو بن کرنمودار ہوا۔ یہ شخص نہ رو کر بھی بہت رویا۔ دوستو آنسوؤں کے پیالے پی لینا کوئی آسان کام نہیں۔ میں نے دوبارہ پوچھا شہزاد بھائی آپ کے والد گرامی راجہ یونس کی کوئی ایسی بات جو آپ کے دل و دماغ پر نقش ہو گئی ہو۔ تو کہنے لگے ان کی ساری زندگی میرے دل و دماغ اور وہم و گمان پر نقش ہو چکی ہے۔ شاہد بھائی میرے والد گرامی میرے دوست تھے۔ میں اپنے دل کی ہر بات ان سے دوستوں کی طرح کرتا تھا اور وہ ایک مخلص دوست کی طرح اسکے فوائد اور نقصانات سے آگا ہ کر کے مجھے زندگی کے نشیب و فرازسے مقابلہ بازی کا ہنر دیتے رہے۔ ان سب داؤپیچ میں ایک بات جو ساری زندگی میرے لئے ڈھال بنی رہے گی وہ یہ کہ
جو اہلِ ظرف ہوتے ہیں ہمیشہ جھک کے ملتے ہیں
سُراحی سر نگوں ہو کر بھرا کرتی ہے پیمانہ
میرے ابّا جی نے مجھے ظلم کے
خلاف سیسہ پلائی دیوار بن جانا اور مظلوم کے لیئے اس کی ڈھال بن جانا سکھایا اور آج میں جب اپنے گریبان میں جُھکتا ہوں تو اپنے ضمیرکو بہت مطمئن پاتا ہوں جب ہر سیاسی جماعت کا فرد مجھے اپنا بھائی بیٹا جان کر عزت دیتا ہے۔ راجہ شہزاد بتاتے ہیں کہ مارچ 1934ء میں ساگری ضلع راولپنڈی میں پیدا ہونے والا یہ شخص میرا والد دُنیا کی بہترین اور بہادر ترین فوج پاک فوج میں بھرتی ہوئے۔ آپ جب آڑٹلری کی زینت بنے تو کسی شخص نے دوسرے آدمی کو لکڑیاں مار کر قتل کر دیا۔ اس قتل میں ان کا نام بھی آگیا۔ جب کہ ایسا ہر گز نہیں تھا۔ راجہ محمد یونس گرفتار ہوگئے۔بہت بڑی اورانتہائی کڑی سزا کاٹی۔ یاد رہے کہ قتل ہونے والا شخص جنرل ٹکا خان کا عزیز تھا۔ اُس وقت وہ غالباََ کرنل کے رینک میں تھے۔ قُربان جاؤں ملک پاکستان کے عظیم سپہ سالارجنرل ٹکا خان پر کہ جس طرح وہ ساری زندگی حق گو رہے اُسی طرح اُس موقع پر اپنا کردار نبھاکر یہ ثابت کیا کہ طاقتور وہ ہے جو ظلم کے خلاف آواز بُلند کرے۔ جنرل ٹکا خان نے حق اور سچ کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ غلطی ہمارے آدمی کی تھی اور یہ جھگڑا بھی اسی لیئے ہوا۔ لہذا جنرل ٹکاخان نے راضی نامہ کروا کہ رہائی دلوائی۔ یہ 1960ء کے عشرے کی بات ہے جب راجہ یونس نے نوکری کو صرف اس لیئے خیر آباد کہ دیا کہ وہ اس یونٹ میں قید رہے لہذا ضمیر نہیں مانتا کے اس یونٹ میں نوکری کروں۔ آج دُنیا کی ہر سہولت میسر ہونے کے باوجود راجہ شہزاد یونس نے اپنا ماضی ہر گز نہ چھپایا اور تمام حقائق کھل کر مجھے بتائے۔ شہزاد بھائی بتاتے ہیں کہ فوج کی نوکری چھوڑنے کے بعد میرے والد راجہ یونس نے انگلینڈ جانے کی کوشش کی۔ اُس کے لیئے 1200 روپے درکار تھے جبکہ انکے پاس صرف800 روپے تھے۔ دوسری جانب اُدھار لینا منظور نہ تھا اور تیسری جانب گھر والوں کو ان کا پردیسی ہونا قبول نہ تھا۔ لہذا انہوں نے دن رات ایک کر کے زمینداری کی۔ نماز فجر کھیتوں میں ادا کرتے اور ناشتہ بیلوں کی جوڑی کے درمیان بیٹھ کر کرتے۔ اُ س لالٹین کی عظمت کو سلام کہ جس نے انرجی سیور جیسی روشنیوں کو مات دے ڈالی اور حلال رزق سے اولاد کو وہ چمک عطا کی کہ آج یہ اولاد اپنے آباؤاجداد کا نام روشن کر رہی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ بہت عرصے تک میرے والد اپنے گاؤں سے دیسی انڈے اکٹھے کرتے رہے اور اپنے گاؤں ساگری سے انڈوں کا ٹوکرا اپنے سر پر رکھتے اور 10 سے 15میل کا سفر پیدل کر کے مندرہ جا کر اُسے فروخت کرتے۔آج کے دور میں ایساگمان بھی محال ہے۔ وقت بھی بڑی عجیب شے ہے کہ انسان کو اس دو دن کی زندگی میں کہاں کہاں کا مسافر بنا دیتا ہے۔ شہزاد بھائی بتاتے ہیں کہ ماموں اشرف نے میرے والد کو دوبارہ پاک فوج میں بھرتی کروا دیا۔ مگر اس بار وہ پینشن والے ہو کر واپس لوٹے۔ یہ سچی کہانی جہاں راجہ محمد یونس کی ساری زندگی کی غمگین داستان تھی وہاں دوسری جانب یہ ہماری نوجوان اور آج کل کی نسل کے لیئے ایک پیغام بھی ہے کہ عام افراد کی طرح بہت سے افراد زندہ رہتے ہیں۔مگر کمال تو یہ ہے کہ کچھ خاص بن کر زندہ رہنا اور پھر آنے والی نسلوں کے لیئے مشعلِ راہ بن جانا جس دن یہ عظیم انسان اس دُنیا سے چل دیا اُس دن شہزاد بھائی اور انکے دوسرے دو بھائی کرچی کرچی محسوس ہو رہے تھے۔ ان کا افسردہ ہونا بنتا ہے کیوں کہ وہ ایک بہترین سنگی سے محروم ہو چکے ہیں۔ شہزاد بھائی بتاتے ہیں کہ اس دُنیا سے جانے سے دو چار دن قبل جب گھر پر آنے والے افراد صحت کے بارے میں پوچھتے تو ایک ہی جواب دیتے کہ ”میں بالکل ٹھیک ہوں“۔ یہاں پر بھی جاتے جاتے ایک باپ نے اپنے درد اپنی اولاد سے ایک بار پھر چھپا لیئے۔ نہ جانے کتنی بار گھر سے باہر جا کر یہ فرد رویا ہو گا کہ کہیں میری اولاد میرے آنسو دیکھ کر بزدل نہ ہو جائے۔ نہ جانے زندگی کی کتنی راتیں بغیر کھائے سو گیا ہو گا مگر یہ کہا ہو گا کہ آج میں کھانا کھا کر آیا ہوں دوستوں کے ساتھ یا یہ کہ آج مجھے بھوک نہیں ہے۔ نہ جانے کہاں کہاں تھک کر رُکا ہو گا اور اپنے والدین کے آسرے کو یاد کیا ہو گا۔ ایسے انمول افراد بظاہران پڑھ مگر حقیقت میں انتہائی تعلیم یافتہ ہوا کرتے ہیں کہ تعلیم نہ ہونے کے باوجود بے راہ روی سے کوسوں دورا۔ 15فروری2020 بروز ہفتہ بوقت نماز فجر زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر امر ہو جانے والے راجہ محمد یونس نے آخری ہچکی لی اور وہاں چلے گئے جہاں سے واپسی ناممکن ہوا کرتی ہے۔ اب کوئی بھی اس تحریر کو کہیں پر بھی لاگو کر سکتا ہے کیوں کہ ایسے افراد ملک پاکستان کے کونے کونے میں موجود ہیں مگر تناسب میں بہت کم۔
وقت ہے جھونکا ہوا کا اور ہم فقط سوکھے پتے
کون جانے اگلے دسمبر تم کہاں اور ہم کہاں
162