189

ذرا معذرت سے/فیصل صغیر راجہ

غربت کی جب انتہا ہو جائے اور کوئی چارہ نہ رہے تو انسان کبھی کبھی اپنی جان لینے سے بھی نہیں رکتا غربت جسے تما م برائیوں کی جڑ کہا جاتا ہے یہ انسان سے وہ کام بھی کروا دیتی ہے جو شاہد وہ کبھی نہ کرنا چاہے حالات سے مجبور انسان چور ڈاکو اورفریبی تو بن ہی جاتا ہے بلکہ نوبت خود کشی تک آ جاتی ہے شاہد اسی وجہ سے لوگ گدا گری،چوری،عصمت فروشی اور منشیات کے عادی ہو جاتے ہیں آج موضو ع کوئی اور تھا اور لکھنا کچھ اور چاہا رہا تھا مگر میر اایک دوست میرے پاس آیا تو میں اس شخص کی رو داد لکھنے پر مجبور ہو گیا میرے سامنے بیٹھنے کے بعد وہ گویا ہو ا۔کہ جناب آپ مجھے جانتے ہی ہو مگر کچھ حقائق ایسے ہیں جن سے آپ بھی واقف نہیں اس لئے میری بائیں ذرا غور سے سنیے گا میں ایک درمیانے طبقے کا شخص تھا اب نیچلے طبقے میں ہوں تقریباًدس سال قبل شادی ہوئی تین بچے ہیں (اب تینوں سکول بھی جاتے ہیں )میں نے شادی کے بعد اپنے ہی گاؤں ایک کریانہ کی دکان ڈالی دو سال تک جو وسائل تھے میں سامان لاتا رہا لوگ ادھار لیتے رہے اور (مکرتے گئے)چاروناچار کاروبار ختم ہو گیا مجبوراًمزدوری کرنا شروع کر دی اچھی خاصی گزر بسر ہونے لگی مگر (جیسا کہ آپ جانتے ہیں)میں اچانک بیمار ہو گیا میرے چندعزیز رشتہ دا رہسپتال لے گئے ڈاکٹر نے کہا اٹیک ہوا ہے مگر ابھی نارمل جھٹکا لگا ہے انجو گرافی کرائی گئی اور ڈاکٹر نے سخت کام کرنے سے منع کردیا اور میں خود بھی کچھ ڈر سا گیا طبعیت بحال ہونے کے بعد میں نے ایک پرائیوٹ ادارے میں ملازمت شروع کردی حالات معمول پر آنا شروع ہو گئے مگر اس دوران کچھ مقروض ہو گیا حالانکہ چند احباب نے معاونت بھی کی (جنکا مشکور ہوں )جواب پر محفل میں دہرا دیتے ہیں کہ جب تم بیمار ہوئے تو ہم نے تمہیں کچھ رقم بطور مدد دی تھی ::دوران ملازمت ایک بار بسلسلہ کام راولپنڈی جاتے ہوئے ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی جس نے بر باد کردیا سعودیہ کا تین سالہ ویزہ دینے اور پاسپورٹ خود بنوانے کے لئے میں نے بغیر کسی کو بتائے اسے چالیس ہزار روپے اپنا ڈومیسائل مارک شیٹ اور شناختی کار ڈکی فوٹو کاپی دے دی ،چند ہی دن کے بعد اس کا فون جو نمبر اس نے دیا تھا بند آنا شروع ہو گیا پہلے ہی مقروض تھا مزید چالیس ہزار کیوجہ سے پریشان رہنے لگا لوگ طرح طرح کی باتیں بھی بناتے مگر مجبورتھا خاموش رہا خاموشی نے دل دل پر اثر کیا دوبارہ بیمار ہو گیا۔RICگیا ،اپنوں نے پھر Citi انجو گرافی کی حکومت کیطرف سے غریبوں کے لئے بنائے گئے ہسپتال میں اچھی خاصی رقم دیکر گھر واپس آیا فرق صرف اتنا پڑا پہلی دفعہ ہسپتال میرے عزیز رشتہ دار لے گئے تھے مگر دوسری دفعہ میرا ایک محسن لے گیا میں اس شخص کا تہہ دل سے مشکور ہوں::اس بار میری بیوی خاطر ہسپتال میں دھکے کھاتی رہی (یہ باتیں کرتے ہوئے وہ کچھ رنجیدہ سا ہو گیا۔پانی کا گھونٹ بھرنے کے بعد دوبارہ بولا )بالاآخر تنگ آگیا اور کوئی حل تلاش کرنے لگا ۔خود کشی حرام موت کیوجہ سے نہ کی ورنہ نوبت یہاں تک آگئی تھی ::کافی سوچ بچار کے بعد اپنی چند مرلہ زمین فروخت کر کے قرض ختم کرنے کا فیصلہ کیا مگر الٹ ہو گیا::زمین جو شخص لے رہا تھا وہ رقم اگھٹی دیتا میں قرض ادا کرتا اور بات ختم ہو جاتی مگر اس دوران میرے ایک عزیز کو خبر ہو گئی اس نے گا ہک سے ساز باز کرلی اور خود خریدار بن گیا کبھی ہزار تو کبھی پندرہ سو رقم بھی ایسے دے رہا ہے ::قرضہ تو ختم نہ ہو ازمین چلی گئی البتہ ناراضگی بڑھ گئی اسی دوران ایک ایسی نوکری مل گئی جو پنشن ایبل ہے مگر تنخواہ بہت کم ہے ::لوگ دروازے پر آکر پیسے مانگنا شروع ہوگئے ہیں جینا محال ہو گیا ::فیصل بھائی اب بتاؤ کیا کروں
(بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی اور منصف بھی ::کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں )
شعر سناتے ہوئے اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے وہ میرے سامنے مجبوری لا چاری اور بے بسی کی تصویر بنا بیٹھا تھا میں گہری سوچوں میں گم تھا با ر بار میرے ذہن میں یہ الفاظ گردش کر رہے تھے کہ ::(دنیا میں کتنا غم ہے ::میر اغم کتنا کم ہے )میرے اس دوست کی یہ باتیں آپ کہانی سمجھیں افسانہ یا کچھ اور مگر ہر محفل کی جان سمجھا جانے والا شخص::ہر دوست کے لئے لازم پر رشتہ دار کیلئے ضروری۔۔۔۔۔۔آج تنہا زندگی گزارنے پر مجبور کیوں ::شاہد اس میں کچھ غلطیاں اس کے اپنی بھی ہیں مگر زیادہ قصور زمانے کا ہے ::ہماری نوجوان نسل سخت مشکل میں گرفتار ہے انکی تمام صلاحیات ،بے بسی کے بازار میں سر عام بک رہی ہیں مگر وہ بے بس ہیں کچھ نہیں کر سکتے لا کھوں نوجوان شدید ذہنی کو فت میں الجھے ہوئے ہیں۔آخر میں وہ تما م سوال کہ
کیا غریب مجبور،بے بس ہو نا جرم ہے ؟
کیا کسی کے مجبوری سے فائدہ اٹھانا جائز ہے ؟
کیا کسی غریب و مجبور کو بھری مجلس میں کم تر سمجھ کر طنز کرنا جانز ہے ؟
کیا کسی کے احسانات کا بدلہ ،اسکی بے عزتی کرنا ہوتا ہے ؟
ان تما م سوالوں نے مجھے تو جھنجھوڑ دیا اور میں اسے کوئی جواب نہ دے سکامگر میری آنکھوں سے جاری آنسوں اس کے دکھ میں شریک ہونے کی گواہی دے رہے تھے اور وہ پھر کبھی آنے کا کہی کر چلا گیا{jcomments on}،

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں