اس قوم نے ایک طویل عرصہ تک دہشتگردی برداشت کی ہے۔ گزشتہ کم از کم بیس سال سے ہمارا وطن دہشتگردوں کے نشانے پر ہے اور دہشتگردی کے واقعات تسلسل کے ساتھ پیش آرہے ہیں۔ ان میں ہمارے ہزاروں شہری اور افواج کے جوان شہید ہو چکے ہیں۔ ملکی معیشت کو جو نقصان پہنچا وہ علیحدہ ہے۔ انسانی خون کا بے دریغ ضیاع ہوتا رہا جس کا سلسلہ تھمنے کی بجائے بڑھتا رہا۔ 2014
میں پیش آنے والے سانحہ آرمی پبلک سکول کے بعد تمام سیاسی جماعتوں نے فوجی قیادت کے ساتھ مل بیٹھ کر نیشنل ایکشن پلان تیار کیا جس میں دہشتگردی کو کسی بھی صورت کو برداشت نہ کرنے کا فیصلہ ہوا اور دہشتگردوں کا قلع قمع کرنے کا عزم کیا گیا۔ اس کے بعد ایک بڑا آپریشن ’ضرب عضب‘کے نام شروع ہوا، اس آپریشن کا مقصد دہشتگردوں کا خاتمہ تھا۔
مگربدقسمتی سے آپریشن ضرب عضب سے بھی مکمل طور پر دہشتگردی کا خاتمہ نہ ہو سکا اور ان کی اکا دکا کاروائیاں جاری رہیں لیکن ان کا زور ٹوٹ چکا تھا۔ صرف اپنی موجودگی کے اظہار کے لیے دہشتگرد موقع ملنے پر چھوٹی موٹی کاروائیاں کرتے رہے مگر دہشتگردی کی گزشتہ تاریخ کے مقابلے میں یہ کاروائیاں نہ ہونے کے برابر تھیں یوں کچھ عرصہ تک تو وطن عزیز میں امن و امان قائم ہو گیا۔ پھر رفتہ رفتہ دوبارہ دہشتگردوں نے وطن عزیز میں کاروائیاں شروع کر دیں۔پھر حکومت نے ایک بار پھر آپریشن کا فیصلہ کیا
اور اب کی بار اس آپریشن کو ’رد الفساد‘کا نام دیا گیا اور دہشتگردوں کو نقصان پہنچانے اور ان کے خاتمے کے لیے کوشش کی گئی اب کی بار بھی وہی ہوا کہ وقتی طور پر تو دہشتگردوں کی کاروائیاں کم ہو گئیں اور ملک میں کسی حد تک امن قائم ہو گیا لیکن یہ بھی دیرپا ثابت نہ ہوا
اور ایک بار پھر دہشتگردی نے سر اٹھانا شروع کر دیا۔ 2021سے ملک میں دہشتگردی کے واقعات پیش آنے لگے اور ان میں اضافہ ہونے لگا۔ 2022کے اختتام اور 23کی ابتداتک تو یہ عالم تھا کہ کوئی دن ایسا نہیں جب ملک کے کسی علاقے میں دہشتگردی کا کوئی واقعہ پیش نہ آیا ہو، ان واقعات میں دن بدن اضافہ ہوتا رہا۔
افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد پاکستان میں دہشتگردی کی کاروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ شاید دہشتگردوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے اور انہیں محفوظ ٹھکانے بھی میسر آ گئے ہیں۔ اگرچہ ہم بھی ان لوگوں میں سے تھے جو یہ سمجھتے تھے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد پاکستان میں امن قائم ہو جائے گا، طالبان ہماری مغربی سرحد پردہشتگردوں کی آمد و رفت کا سلسلہ بند کر دیں گے
مگر اب حالات کو دیکھتے ہوئے نہایت مایوسی اور افسوس ہو رہا ہے۔ہم نے اپنی مغربی سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے خاردار باڑ لگانے کا سلسلہ بھی شروع کیا تھا مگر اب تو وہ بھی غیر مؤثر محسوس ہو رہا ہے کیونکہ دہشتگردوں کی آمد و رفت کا سلسلہ تو جوں کا توں جاری ہے، نہ جانے وہ باڑ کس کام کی ہے؟
اب حکومت نے ایک بار پھر آپریشن عزم استحکام کا عزم کر لیا ہے، اس بار صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ افغانستان میں بھی دہشتگردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کا ارادہ ہے۔’
اب مسئلہ یہ ہے کہ پہلے کے فوجی آپریشن اگر دہشتگردی کو مکمل طور پر ختم نہیں کر سکے تو اب ایک بار پھر فوجی آپریشن کیوں؟ کیا اس مسئلے کا کوئی اور حل نہیں نکل سکتا؟ اگر فوجی آپریشن مسئلے کا حل ہیں تو سو بار کیجیے کیونکہ ہم بھی یہی
چاہتے ہیں کہ ملک سے کسی طرح دہشتگردی کے ناسور کو ختم کیا جائے مگر مسئلہ یہ ہے کہ یہ ہمارے لیے ایسی دلدل ثابت ہو رہی ہے کہ جتنا نکلنے کی کوشش کرتے ہیں اتنا ہی دھنستے چلے جاتے ہیں۔ ایک آپریشن کیا وقتی طور پر دہشتگرد خاموش ہو گئے ہم خوش ہو گئے کہ دہشتگردی ختم ہو گئی لیکن کچھ ہی عرصہ میں دوبارہ وہی مسئلہ پیدا ہو گیا، دوبارہ آپریشن کیا پھر وقتی طور پر دہشتگرد خاموش ہو گئے لیکن پھر وہی حال دوبارہ ہو گیا کہ دہشتگرد روزانہ کی بنیاد پر کاروائیاں کرنے لگے۔
ہم نے دہشتگردوں کی آمد و رفت روکنے کے لیے باڑ لگائی تو وہ بھی ناکام ہو گئی اور دہشتگردوں کی آمدورفت جوں کی توں جاری ہے، ہم نے افغانستان میں دہشتگردوں کے ٹھکانوں پر حملے کیے تو دہشتگردوں کے ساتھ ساتھ افغان حکومت بھی مخالف ہو گئی۔ اب حکومت ایک بار پھر آپریشن کرنے کا عندیہ دے رہی ہے
لیکن کیا یہ آپریشن دیگر آپریشنوں سے مختلف ہو گیا اور کیا یہ دہشتگردی کے مکمل خاتمے میں کامیاب رہے گا یہ تو وقت ہی بتائے گاابھی ا س بارے میں حتمی طور پر کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا لیکن پہلے کے تمام آپریشنوں اور کاروائیوں کو پیش نظر رکھ کر نتیجہ نکالنا مشکل نہیں ہے۔
بہر حال اس تمام تر گفتگو کا مقصد یہ نہیں ہے کہ دہشتگردوں کے خلاف آپریشن نہیں کرنا چاہیے یہ بسا اوقات ضروری بھی ہوتے ہیں لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ آپریشنز کامیاب کیوں نہیں ہوتے اگرچہ وقتی طور پر تو ان کے نتیجے میں دہشتگردی کی کاروائیاں کم ہو جاتی ہیں لیکن پھر جلد ہی دوبارہ دہشتگرد نکل آتے ہیں
۔ یا تو ان آپریشنوں کا طریقہ کار درست نہیں ہے یا حتمی نتیجے تک پہنچنے سے قبل ہی انہیں ختم کر دیا جاتا اور دہشتگردوں کی باقیات رہ جاتی ہیں۔ جو دوبارہ جڑ پکڑ لیتی ہیں اور ملک کے لیے نقصان کا باعث بنتی ہے۔ لہٰذا پہلے تو کوشش یہ ہونی چاہیے کہ کسی بڑی فوجی کاروائی کے بغیر ہی اس مسئلے کو حل کر لیا جائے کیونکہ یہ ملک کے موجودہ حالات کے لیے موزوں نہیں ہے
لیکن اگر اس کے لیے فوجی کاروائی ضروری بھی ہو تو پھر ایک جامع حکمت عملی کے ساتھ کی جائے تاکہ عوام اور فوج دونوں کا نقصان کم سے کم ہو اور دہشتگردوں کا جڑ سے خاتمہ ہو جائے۔ تبھی یہ آپریشن کامیاب آپریشن کہلائیں گے اور اسی صورت میں ملک میں مکمل اور دیرپا امن قائم ہو گا۔