199

دھرنے کا خاتمہ مگر کیوں؟/طاہر یاسین طاہر

زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

خواجہ میر درد کو پتا نہیں کیا مشکل پیش آئی کہ انھوں نے یہ شعر کہا،ہماری مشکل البتہ اور طرح کی ہے۔خودفریبی کا شکار معاشرہ تباہ ہوا کرتا ہے۔حد سے بڑھا ہوا اعتماد بھی گاہے رسوائی اور ناکامی کا در وا کرتا ہے۔
70دن بعد علامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے اپنے اسلام آباد کے دھرنے کو یہ کہہ کر ختم کر دیا کہ اب شہر شہر دھرنے ہوں گے۔مگر کیوں ؟انقلاب کے لیے؟اس اخبار نویس نے قادری صاحب کی پاکستان آمد پر ان کی لاہور میں گورنر پنجاب کے ساتھ ڈیل کے سائے میں گھر کو روانگی پر ایک کالم لکھا تھا۔قادری نواز منہ نوچنے لگے۔مسلکی دانش بھی گاہے انسان کو درست تجزیہ نہیں کرنے دیتی۔ہم سب خوابوں کے اسیر ہیں۔بلاشبہ اسلام آباد میں ڈاکٹر طاہر القادری صاحب اور عمران خان کی پارٹی کے دھرنوں نے لاگوں کو شعور دیا۔کرپشن کی کئی پوشیدہ کہانیاں طشت ازبام ہوئیں،لیکن وہ امیدیں؟انقلاب کی صبح کے سورج کے طلوع ہونے کی نوید؟کفن پہن کر تقریریں اور کفن پوشوں کی صفیں؟وہ خاص بات جو ڈاکٹر صاحب نے انقلاب مارچ سے قبل لاہور میں کہی تھی کہ’’مقصد حاصل کیے بغیر جو بھی واپس آئے اسے ’’شہید‘‘ کر دیا جائے‘‘ عمران خان تو اسلام آباد میں موجود ہیں۔کیا قادری صاحب کا مقصد پورا ہو گیا؟اگر پورا ہو گیا تو پھر وہ کیوں شہر شہر دھرنا دینے نکلیں گے؟ اور اگر مقصد پورا کیے بغیر وہ آگئے تو کیا وہ اپنے ہی جوشِ خطابت کی زد میں نہیں آگئے؟کیا اب وہ خوش دلی سے’’شہادت‘‘ قبول فرما لیں گے؟اس لمحے بندہ غالب کو ہی یاد کرتا ہے
بازیچہء اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
کیا قادری صاحب نے اپنے اتحادیوں کو بھی اعتماد میں لیا؟اڑی اڑی سی خبر تو یہ بھی تھی کہ چوہدری برادران سے قادری صاحب کے اختلافات ہیں۔جانے دیجئے ،ہوں گے اختلافات،سیاست میں مفادات ہی حلیف و حریف بناتے ہیں۔وہ مگر ’’عوامی پارلیمنٹ‘‘؟کیا دھرنا ختم کرنے سے قبل اس ’’عوامی پارلیمنٹ‘‘ کے اراکین کو بھی اعتماد میں لیا گیا؟اگر نہیں تو کیا یہ’’عوامی پارلیمنٹ‘‘ کی ’’توہین‘‘ نہیں ہے؟
تازہ ہوا کے شوق میں اے ساکنانِ شہر
اتنے نہ در بناؤ کہ دیوار گر پڑے
انقلابی صبح کی بادِ صبا تو نہ چلی مگر انقلاب کے اس تازہ تازہ سفر نے عوامی جدوجہد کے بے طرح بے آبرو کیا۔اخبارات والے بھی بال کی کھال اتارتے ہیں۔کہا جا رہا ہے کہ دھرنے کے خاتمے کے لیے قادری صاحب اور حکومت کے درمیان’’بیک ڈور‘‘ روابط ہوئے۔مگر وہ خونِ شہیداں؟کیا اب کی بار پھر وہ رزقِ خاک ہو گیا ہے؟بے شک امیدوں کی دیوار گر پڑی ہے۔کیا دھرنے کے شرکا صرف اس لیے رو رہے تھے کہ وہ بچھڑ رہے ہیں؟اخبار نویس دوسرا رخ بھی دیکھتا ہے۔بیشتر کے آنسوؤں کی لکیر یہ سوال بھی پوچھ رہی تھی کہ اگر آخرِ کار یہی کرنا تھا تو ہمیں 70دن تک انقلاب لانے کا دھوکہ کیوں دیے رکھا؟وہ جن کی نوکریاں گئیں؟17جون2014کے سانحہء ماڈل ٹاؤن کے شہدا کے ورثا کی امیدیں؟کیا ان کا خون کا قصاص یہی ایک بے مراد پریکٹس تھی؟
سیاسی تجزیہ کار وں کا کہنا ہے کہ اب حکومت تحریکِ انصاف والوں کے ساتھ زیادہ آسانی کے ساتھ نمٹ لے گی،عمران خان مگر اپنے بات پر ڈٹے ہوئے ہیں۔اگرچہ انھیں قادری صاحب کے جانے سے سیاسی دھچکا ضرور لگا مگر وہ پیچھے نہیں ہٹیں گے؟دیکھنا یہ ہے کہ محرم الحرام میں عمران خان کیا حکمتِ عملی اپناتے ہیں۔یہ امر فراموشنہیں کیا جا سکتا کہ ان دھرنوں نے عوام کے اندر سیاسی شعور کو بیدار کیا،لوگوں کے ذہنوں پر چھائے خوف کے سائے کسی حد تک دور ہوئے مگر میرا سوال یہ ہے کہ اگر یہ مارچ ’’انقلابی‘‘تھا تو اس میں قادری صاحب کی دو باتیں کوئی کیسے فراموش کرے؟ ایک یہ کہ مقصد حاصل کیے بغیر جو بھی واپس پلٹ آئے کارکن اسے شہید کر دیں،اور دوسری بات اسلام آباد کے ڈی چوک میں کفن پوش تقریر؟قادری صاحب کے دھرنے کے خاتمے پر حکومت کی جانب سے ستائشی بیانات بھی اخبار نویس کے لیے تشویش کا باعث بنے۔لوگوں کا جذبہ بلا شبہ دیدنی تھا، کل وقتی دھرنہ،مگر قادری صاحب کے سارے اندازے غلط نکلے،ہمیشہ کی طرح۔بڑے جلسے وہ اب بھی کر سکیں گے، کہ وہ ایک تنظیم رکھتے ہیں،مگر اب ان کے بڑے بڑے جلسوں سے حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔قادری صاحب اسلام آباد والے دھرنے کو ختم کرنے کے بجائے اسے محرام الحرام کے احترام میں مؤخر کرنے کا اعلان کرتے تو ان کی بات زیادہ وزن رکھتی اور حکومت پر دباؤ بحال رہتا، وہ مگر ہمیشہ کی طرح جلد باز ہیں۔خوبصورت ایجنڈا،پر جوش اور طویل خطابت،حکمرانوں کا للکارنا اور انھیں پھانسی کے پھندے تک لے جانے کی ساری باتیں ایک طرف۔آخری تجزیے میں قادری صاحب کا دھرنا اپنے کسی بھی اعلان شدہ مقصد کو حاصل کیے بغیر دوسرے شہروں کو رخ اختیار کر گیا۔ بالکل اس سیلاب کی طرح جس کی آمد کی پیشن گوئی محکمہ موسمیات والے کرتے ہیں، مگر وہ سیلاب اس شدو مد سے نہیں آتا اور برسوں کی پیاسی زمین پیاسی کی پیاسی ہی رہ جاتی ہے۔قیادت کی ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ جلد باز نہیں ہوتی،جذباتیت کو تدبر پر غالب نہیں آنے دیتی اور امید کو ہرا بھرا رکھتی ہے۔قادری صاحب نے اس دھرنے حاصل کرنے کے بجائے بہت کچھ کھویا ہے۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں