انسان ہر چیز کو اپنے پیرائے میں سوچتا ہے اور اسے اپنے انداز میں بدلنا اور چلانا چاہتا ہے مگر خود کو بدلنے کا کبھی کسی نے نہیں سوچا خود پر اتنا غرور کہ ہم یہی سمجھتے ہیں کہ شاید اس دنیا کا سارا نظام ہمارے بل بوتے پر چل رہا ہے یاصرف ہم ہی ہیں جو اس نظام کو ٹھیک کر سکتے ہیں مگر ایسا ہر گز نہیں ہمیں (میں)کے خول سے نکلنے کی ضرورت ہے ہم اپنی روز مرہ کی زندگی اپنے بنائے ہوئے فرسودہ نظریات کے مطابق گزارنا چاہتے ہیں اور نظریات بھی ایسے جو ہمیں روز مرہ پیش آنے والے معاملات سے اخذکیے جاتے ہیں پھر اپنے خیال میں اس کا حل تلاش کرنا اور جو حل سمجھ آئے اسے ہی بہتر جانتے ہوئے اسی پر عمل پیرا ہونا چاہے اسے کتنا ہی نقصاں کیوں نہ ہو جیسے اب پاکستان میں دھرنے کا فیشن عام ہو گیا ہے عمران خان اور طاہر القادری ہر مسئلے کا حل دھرنے کو ہی سمجھ بیٹھے ہیں ان دونوں خوش فہم شخصیات کے خیال میں دھر نا دینے سے بجلی پوری ہو سکتی ہے ،بے روزگاری کم ہو سکتی ہے بلکہ مہنگائی ، لوٹ مار اور کرپشن ان تمام مسائل اور برائیوں کا واحد حل ریلیاں اور دھر نے ہیں ویسے لاہور میں ہونے والی ریلی میں بد انتظامی اور کراچی میں ہونے والے جلسے میں ناکامی کے بعد خان صاحب کو اب کوئی اور حل سوچنا چاہیے مگر کیا کیا جائے ہماری قوم (میں نہ مانوں ) کی پالیسی پر عمل پیرا ہے خان صاحب اور قادری صاحب بھی (میں نہ مانوں ) کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں جس میں سرا سر نقصان ہی نقصان ہے در اصل عمران خان شروع دن سے ہی عجلت میں فیصلے کر رہے ہیں اس عمل میں پی ٹی آئی کلر سیداں پیچھے نہیں یہاں بھی تمام فیصلے عجلت میں ہی کیے جا رہے ہیں اس پر پھر کبھی بات ہو گی تحریک انصاف نے اگلا مارچ رائے ونڈ کی جانب کرنے کا کیا ہے اور خان صاحب نے عجلت میں اس کا اعلان بھی پہلے کر دیا اگر مارچ کی تاریخ 23ستمبرہی رہتی تو وزیر اعظم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی وجہ سے امریکہ میں ہوتے شیڈول کے مطابق میاں صاحب کی واپسی 26ستمبر کو ہے مگر اب مارچ کی تاریخ تبدیل کر کے 30ستمبر کر دی گئی ہے گمان ہے کہ تاریخ کی طرح جگہ بھی تبدیل کر دی جائے گی عمران خان کی رائے ونڈ کی طرف مارچ کے اعلان کے بعد مسلم لیگ ن میں بھی بنی گالہ کی طرف مارچ کرنے کی دھمکی دے رکھی ہے پی ٹی آئی والے رائے ونڈ جائیں یا نون والے بنی گالا سوال یہ ہے کہ ایسے میں پیدا ہونے والے حالات کا ذمہ دار کون ہے اگر خدا نخواستہ کوئی مسئلہ ہوا تو رگڑا عوام کو ہی لگے گا نقصان ہر دو صورت میں عام عوام کا ہی ہو گا کیونکہ سیاست دان تو نہ ایک دوسرے پر ہاتھ اٹھائیں گے نہ لاٹھی چارج کی زد میں آئیں گے گتھم گتھا عوام ہوں گے اور FIRبھی کارکنوں پر ہی درج ہوگی نقصان صرف اور صرف پاکستان کا ہو گا سوچنا یہ ہے کہ ایسا کب تک ہوتا رہے گا اس اقتدار کی جنگ میں یہ لوگ کب تک عوام کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کرتے رہیں گے اور یہ قوم کب تک ان اقتدار کے پجاریوں کے جھوٹے وعدوں پر یقین کرتے رہیں گے پاکستانی عوا م کے حقوق کی جنگ کون لڑے گا کون بے روزگای ، بد امنی ، مہنگائی ، لوٹ مار ، کرپشن ، نا انصافی اور رشوت خوری کا خاتمہ کرے گا کیا کبھی ہمیں ایسا حکمران میسر آ سکے گا ؟ {jcomments on}
128