129

جہالت

ایک مسافر نے دریا پاکرنا تھا۔جب کشتی میں سوار ہوتا ہے تو ملاح سے سوال کرتا ہے تم نے کیمسٹری پڑھی ہے ؟ ملاح کہتا ہے کہ محترم ہمارے اباؤاجداد نے ایک نسل سے غربت دیکھی ہے ،غریب کی سوچ کا محور صرف روٹی ہوتی ہے ۔مسافر نے پھر سوال کیا انگریزی آتی ہے؟ غرض جدید علوم اور ٹیکنالوجی کے بارے میں جو بھی سوال کیا ملاح کا جواب نفی میں تھا۔مسافر نے کہا تم نے کوئی علم حاصل نہیں کیا تم نے تو اپنی آدھی عمر ضائع کردی ۔بیچ دریا میں ملاح کو دور سے طوفان اور گردوغبار نظر آتا ہے اور تھوڑی دیر میں کشتی ہچکولے کھانے لگتی ہے ۔ملاح مسافر سے پوچھتا ہے کہ بھائی صاحب تیرنا آتا ہے آپ کو؟ مسافر نے نفی میں سر ہلا یا کہ مجھے تیرنا تو نہیں آتا ! ملاح نے کہا تم نے ساری زندگی کیا سیکھا؟ تم نے کہا تھا کہ میں نے آدھی زندگی ضائع کردی لیکن اب تمہاری ساری زندگی ضائع ہوگئی ۔کیونکہ کشتی ڈوبنے لگی ہے یہ کہہ کر ملاح دریا میں چھلانگ لگا دیتا ہے ۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمیں زندگی گزارنے کے لیے بنیادی اور ضروری علوم ضرور سیکھنے چاہیں ۔ہمارے استاد کہا کرتے تھے کہ گاڑی کی فرنٹ سیٹ پہ وہ بیٹھے جو ڈرائیونگ جانتا ہو،دریا کی سیر اس کو کرنی چاہیے جو تیراکی جانتا ہو،وقت کے سا تھ ساتھ انسان کی جدید علوم و فنون سے آگاہی ضروری ہے ۔
جہالت کو ختم کرنے کے لیے جدیدیت کا سہارا لیا جاتاہے ۔بریٹانیکا کی انسائیکلو پیڈیا میں جدت کی تعریف کچھ یوں لکھی ہے ! انسان کا پرانی ، دیہاتی ،مذہبی طرز زندگی کو چھوڑ کر نئی شہری اور لادینی طرز حیات کو اپنانا ،جدیدیت کی پہلی غلطی ہی یہ ہے کہ ہر نئی چیز اچھی ہوتی ہے اور ہر پرانی چیز فرسودہ اور بیکار ہے ۔مثلاً گاڑی کا نیا ماڈل ،نیا موبائیل ،نیا ٹی وی ،نیا گھر وغیرہ ۔جدت اگر یہاں تک ہوتی تو پھر بھی ٹھیک تھا لیکن اس کی دیکھا دیکھی ہم نے والدین اور اپنی روائیتوں کو بھی جدیدیت کی نظر کر دیا ہے ۔بوڑھے والدین کو اولڈ ہاؤس صرف یہ سوچ کر منتقل کردیا جاتا ہے کہ ابھی جدید دور ہے ۔بوڑھے لوگوں اور بوڑھی سوچ کی نئے گھر،نئے معاشرے میں کوئی جگہ نہیں اور یہاں سے انسان کی ترقی تنزلی میں تبدیل ہوگئی ۔جدیدیت نے ساتھ ساتھ حیاء کا بھی جنازہ نکال دیا ہے اور اخلاقیات کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ اگر تم میں حیاء نہیں تو جو مرضی کرو ۔ہمارے پاس ہر چیز کی معلومات ہیں اور حاصل کرنے کی کوشش بھی کرتے رہتے ہیں لیکن ہمارے پاس وقت ہی نہیں کہ دین کا علم حاصل کر سکیں ۔جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دین کاعلم حاصل کریں گے تو ترقی میں پیچھے رو جائیں گے ۔اسلام جدید ترین دین ہے ۔ٹیکنالوجی اختیار کرنے کی اسلام میں اجازت ہے اگر کوئی ہوائی جہاز میں حج کے سفر پہ جاتا ہے تو یہ ٹیکنالوجی کا جائز استعمال ہے لیکن اگر یہی جدید زرائع معاشرے میں بگاڑ اور اپنی عیاشی کے لیے اختیار کیے جائیں تو یہ جدیدیت حرام تصور کی جائے گی۔معاشرہ میں جس قدر شرح خواندگی بلند ہو گی اس قدر برائیاں کم ہونگی اور جہالت جس قدر بڑھے گی جرائم اور منکرات بھی بڑھتے چلے جائیں گے ۔خواندگی سے میری مراد کتاب و سنت کی تعلیمات ہیں جس سے ایک صالح مسلم معاشرہ پروان چڑھتا ہے ۔پوٹھوار اور ہند میں اگر ماضی قریب میں دیکھا جائے تو یہاں پر جہالت کے اندھیرے دانستہ پھیلائے گئے ۔ کچھ لوگ نئی گاڑی لیتے ہیں تو اس کے آگے جوتی باندھ دیتے ہیں ،نیا گھر بناتے ہیں تو اوپر کالی کٹوی رکھ دیتے ہیں یہ بھی جہالت کی ایک قسم ہے،جو لوگ ترقی یافتہ ملک میں رہتے ہیں انہوں نے مشاہدہ کیا ہو گا کہ کسی نے کروڑوں کی گاڑی فورڈ ، مرسیڈیز ، لکسس، شیورلیٹ وغیرہ کے آگے جوتی نہیں باندھی لیکن ہمارے ہاں ایک لاکھ کی گاڑی ایف ایکس کے آگے جوتی لٹکی ہوگی کہ کہیں نظر نہ لگ جائے ۔سو سو منزلہ پلازہ کے اوپرآسمانی بجلی کے لیے سنسر ضرور لگے ہوتے ہیں لیکن کسی نے کبھی کالی کٹوی نہیں رکھی، لیکن ہمارے ہاں معمولی گھر کی چھٹ پہ کٹوی رکھ دیتے ہیں کہ نظر لگ جائے گی۔انگریز کی برصغیر آمد سے قبل ہند میں شرح خواندگی نوے ۹۰ فیصد سے زائد تھی اور جب ۱۹۴۷ میں اس نے منحوس قدم نکالے تو شرح خواندگی مایوس کن خطوط پر گر کر محض ۱۰ فیصد رہ گئی ۔ اور لوگوں کی اکثریت جاہل اور اجڈ اور اخلاقیات سے دور ہوتی چلی گئی ۔اسی دور میں آپس میں جھگڑے ،فساد،بے اعتباری بڑھ گئی ۔جہالت اس قدر عام ہوئی کہ ۹۵ فیصد مسلمان دینی د دنیوی تعلیم سے بیگانے کردیے گئے ۔لوگ یہ تک نہ جانتے تھے کہ ہمارے والدین ،بھائیوں اور رشتہ داروں کے اصل نام کیا ہیں ؟ محمد کو مہوند ،محمد جی کو مہونجی ، عبدالجبار کو ضرار ،گلفام کو گاما،اکرام کو کاما ۔غرضیکہ کوئی بھی شخص ایک دوسرے کو اصلی نام سے نہ بلاتے تھے اور نہ جانتے تھے کہ اصل نام ہے کیا؟ کسی مسلمان کا نام بگاڑ کر بلانا بھی دراصل گالی ہی کی ایک قسم ہے جو گناہ کبیرہ ہے ۔سرکار ﷺ کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جو بھی شخص یہ چاہے کہ لوگوں میں اس کی عزت زیادہ ہو تو وہ تین کام کرے ۔۱) سلام میں پہل کرے اور عام کرے ۲) مخاطب کو بہترین نام سے پکارے ۳) مجلس میں دوسرے کے لیے جگہ خالی کرے ۔ علم کے فروغ کے لیے سرکاردوعالمﷺ ایک ولولہ انگیز واقعہ ہے کہ غزوہ بدر میں بہت سے کافر قید کر لئے گئے تو ان قیدیوں میں سے ایسے افراد جو تعلیم یافتہ تھے تو حضورﷺ نے ان سے مالی فدیہ طلب کرنے کی بجائے یہ فرمایا کہ ان میں سے ہر فرد دس دس مسلمانوں کو تعلیم یافتہ بنائے ۔قرآن مبین میں ارشاد ہے کہ اے پیغمبر ﷺ کہہ دیجیے کہ کیا علم والے اور بے علم دونوں برابر ہو سکتے ہیں ۔ہر مسلمان بھائی کا یہ دینی فریضہ ہے کہ علم کو عام کریں اور جہالت کا اندھیرا ختم کرنے کے لیے عملی طور پہ میدان میں آئیں ،لوگ بہت سے عمل ایسے کر رہے ہیں جس کے پیچھے کوئی منطق نہیں صرف ان کو پوائنٹ آؤٹ کرنے کی دیر ہے معاشرے سے وہ جہالت ختم کی جاسکتی ہے۔
spidernet_leo@yahoo.co

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں