راجہ غلام قنبر
جاوید اقبال بٹ مرحوم کیساتھ اتفاق سے تین ملاقاتیں ہوئیں ۔ تمام ملاقاتیں اتفاق سے موت ہی کے مواقع پر ہوئیں پہلی ملاقات قریب پونے دوسال قبل پنڈی پوسٹ کے رفیق جناب ابراہیم کے والد کی فوتگی پر ہوئی تھی دوسری ملاقات عرفان کیانی کی دادی متحرمہ کے چہلم پر ہوئی بعد از دعا و طعام ایک ریسٹورنٹ پر چائے کا دور چلا ۔ اس چائے کے مختصر دور میں جاوید اقبال بٹ کی
شخصیت کے چند جوہر ہی سامنے آئے ۔ ان جواہر کے مطابق جاوید اقبال بٹ ایک وسیع النظر اور وسیع الظرف شخصیت کے مالک لگے۔ دوران گفتگو انتہائی تحمل سے بات چیت سنی اور دلائل کیساتھ اپنا موقف پیش کیا۔ساتھ ساتھ ان کی بذلہ سنجی بھی جاری رہی جو ثابت کرتی تھی کہ جاوید اقبال بٹ ایک زندہ دل اور زندگی کو ہنس کھیل کر گزارنے کے ہنر سے بھی واقف ہیں۔ یہ نسبتا طویل ملاقات اس ایسی تھی کہ دل میں یہ خواہش ابھری کہ آئندہ بھی جاوید اقبال بٹ کے معیت میں وقت گزارا جائے لیکن افسوس کہ یہ خواہش سوشل میڈیا کے آن لائن توسط سے تو رہی مگر بلمشافہ نہ ہوسکی ۔ آخری ملاقات بھی موت کے موقع پر ہی تھی اب کے کسی ساتھ کے رشتہ دار کی فوتگی نہ تھی بلکہ خود جاویداقبال بٹ کا سفر آخر تھا ۔ایک ایسا سفر کہ جس کا ذائقہ ہر ایک ذی روح نے چکھنا ہے۔جیسے خوش وخرم بٹ صاحب مرحوم اس دنیا میں رہے اللہ کرے کہ اسی طرح سکون و آفیت سے برزخ و آخرت میں بھی رہیں۔ آمین
چوہدری جواد مجید
زندگی اور موت لازم ملزوم ہیں اللہ تعالیٰ نے زندگی سے پہلے موت کو پیدا کیا اور ہر انسان کی زندگی پر موت کو حاوی کر دیا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ آج میں کل کوئی اور حتی کے سب نے اپنی اپنی باری پر موت کا ذائقہ چکھنا ہے مرحوم جاوید اقبال بٹ بھی اُن ہی انسانوں میں شامل ہیں جس پر موت بہت جلد حاوی ہو گئی زندگی ہار گئی اور موت ہمیشہ کی طرح جیت گئی جاوید بٹ کا شمار انتہائی محنتی اور دیانتدار لوگوں میں ہو تا تھا میری ان سے ملاقات تقریباََ 6 ماہ پہلے ایک چالیسویں پر ہوئی اورپہلی ملاقات ہی میں انہوں نے مجھے اپنا گھر ویدہ بنا لیاان کی وفات سے پنڈی پوسٹ کی ٹیم ایک عظیم ساتھی سے محروم ہو گئی ہے دعا ہے کہ اللہ ہمیں ان کا مشن جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے
ملک ظفر اقبال جھٹہ ہ ہتھیال
جاوید اقبال بٹ اللہ مغفرت کرے۔جاوید بٹ کے ساتھ گزر ا ہواہر لمحہ یاد گار ہے
ویسے تو جاوید بٹ کے ساتھ گزر ا ہواہر لمحہ یاد گار رہے ۔اس سے جب بھی ملاقات ہوئی اسے ہنستا اور مسکراتا ہو ا پایا۔وہ ہمیشہ دوسروں میں خوشیاں بکھیرتا رہا۔گزشتہ دنوں روات کے مقام پر ایک NGO کے زیر اہتمام منعقدہ تقریب میں میری جاوید بٹ سے آخری ملاقات میرے لئے ایک یاد گار ملاقات بن گئی ہے۔جسے میں عمر بھر نہیں بھلا سکوں گا۔اس دن بھی وہ حسب معمول کھل کر ہنسنا اور مجھے بھی ہنسانا جس طرح وہ ہر کام جلد بازی میں کرنے کا عادی تھا۔زندگی کا سفر بھی اتنی ہی جلد ختم کر کے چلاگیا۔صحافتی دنیا میں جاوید بٹ کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گیا۔
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویراں کر گیا
موت برحق ہے اور اس کا وقت مقرر ہے ہر ذی روح نے اس کا مزہ چکھنا ہے کچھ لوگ مر کر بھی امر رہتے ہیں اور لوگ زندگی میں انھیں یاد رکھتے ہیں ہر دلعزیز شخصیت اور محفل کے روح رواں جاوید اقبال بٹ گزشتہ دنوں اس دار فانی سے کوچ کر گئے جو کہ ہر دلعیزیز شخصیت،خوش مزاج،ملنسار اور دوستوں کے دوست تھے خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ خوب سیرت بھی تھے وہ جس محفل میں ہوتے محفل کی جان ہوتے حاضر جوابی اور گپ شپ میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے ہر وقت دوستوں،عزیز و اقارب سے رابطے میں رہتے ہر دکھ سکھ میں شامل ہوتے۔وہ ایک سینئیر صحافی بھی تھے اور صحافت سے انھیں عشق کی حد تک لگاؤ تھی۔خبریں،انٹر ویو،جلسوں جلوسوں کی کوریج اور فوٹو گرافی میں انتہائی مہارت رکھتے تھے ۔اس وقت روات پریس کلب کے صدر تھے اور ہفت روزہ پنڈی پوسٹ سے گہرا تعلق تھاہر کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا اور پیش پیش رہنا ان کی فطرت میں شامل تھا ان کی وفات پر دوستوں،ساتھیوں اور عزیز و اقارب کے علاوہ واقف کار بھی آزردہ تھے ہر آنکھ اشک بار تھی کسی کو یقیں نہیں آ رہا تھا کہ اتنی پیاری دلعزیز شخصیت غم جدائی دے گئی ہے۔جاوید بٹ کا کمال تھا کہ ہر شخص یہ سمجھتا تھا کہ صرف اسی سے خاص تعلق ہے وہ کبھی نہ بھولنے والی شخصیت کے حامل تھے اور شاید ان کے دوست ہر محفل میں ان کا ذکر کیے بغیر نہ رہ سکیں اور دوست احباب انھیں ہمیشہ یاد رکھیں گے دعا ہے کہ اللہ رب العزت ان کے گناہ معاف فرمائے اور ان کو جوار رحمت میں جگہ نصیب فرمائے اور ان کے عزیز و اقارب کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ امین ثم امین
عرفان کیانی
محبت جسے بخش دے زندگی
نہیں موت پے ختم اس کی کہانی
موت سے کس کو رستگاری ہے پر کچھ لوگوں کی موت بہت سے دلوں کو افسردہ کر دیتی ہے ۔اور خون کے رشتوں کے علاوہ بھی بہت سی آنکھیں اشکبار نظر آتی ہیں ۔ایسا ہی ایک نام ہمارے صحافی بھائی جاوید اقبال بٹ کا ہے جو گزشتہ روز اس دنیا فانی کو چھوڑ کر خالق حقیقی سے جا ملے۔جاوید اقبال بٹ سے میری پہلی ملاقات قریباََ دو سال پہلے پنڈی پوسٹ کے دفتر میں ہوئی ۔ وہ اتنے خوش اخلاق اور ملنسار آد می تھے کے پہلی ہی ملاقات میں اتنے گھل مل گئے جیسے برسوں کی رفاقت ہو۔ حالانکہ میں اس وقت پنڈی پوسٹ میں نیا تھا اور جاوید اقبال پنڈی پوسٹ کے بانیوں میں سے تھے۔ مگر اس بات کا انہوں نے بالکل بھی احساس نہ ہونے دیا اور ہر ایک مقام پر رہنمائی کی ۔ جاوید اقبال ہفتے میں ایک دفعہ ضرور دفتر کا چکر لگاتے ۔اور ان کے آتے ہی جیسے ہر کسی کا چہرہ خوشی سے کھل کھلا اٹھتا تھا ۔ وہ ہر کسی سے کھلے دل اور ہنسی خوشی سے ملتے اور ایک ایک بندے سے الگ الگ حال احوال پوچھتے اور اپنی خوش مزاجی اور ہنسی مذاق سے سب کوایسے محظوظ کرتے کہ وقت کا پتا بھی نہ چلتا ۔ مجھے آج بھی یاد ہے وہ دن کے کالج میں ایک پارٹی تھی جس میں کوئی ڈرامہ پیش کرنا تھا۔ میں نے بٹ صاحب کو کال ملائی کے جناب یہ معاملہ ہے آپ کی مد د درکار ہے ۔ وہ اپنے مخصو ص انداز بیان میں بولے کہ کیانی صاحب آپ دفتر پہنچیں میں پندرہ منٹ میں آتا ہوں ادھر ہی بیٹھ کر آپ کا کام کرتے ہیں ۔ میں دفتر پہنچا وہ بھی آگئے اور مجھ سے حال احوال پوچھے اور کہا کہ پریشان کیوں ہوتے ہیں آپکا کام سمجھیں ہو گیا۔ میں نے کہا سکرپٹ تو ہے نہیں پریشانی تو ہے ۔ انہوں نے کاپی پنسل اٹھائی اور دس منٹ میں استاد اور شاگرد کے موضع پر ایک ڈرامے کا سکرپٹ لکھ کر مجھے دیا کہ یہ چیک کریں ۔مجھے سکرپٹ تو پسند آیا پر میرا اگلا سوال یہ تھا کہ ہم دیکھ کر تو پرفارم کر لیتے ہیں یہ لکھا دیکھ کر ایکٹنگ کیسے کریں گے۔ انہوں نے آرام سے کہا یہ کون سا مسئلہ ہے اور پھر دونوں کریکٹر کے ایک ایک ڈائیلاگ پر ایکٹ کر کے مجھے سارا ڈرامہ سمجھا دیا۔ اگلے روز جب وہ ڈرامہ کالج میں پیش کیا گیا تو ہر ایک چہرے پر مسکراہٹ تھی اور تالیوں سے سب نے خوب داد دی ۔میری آخری ملاقات ان سے پہلی ملاقات کی طرح پنڈی پوسٹ کے دفتر میں ہی ہوئی اور مجھے انہوں نے اپنا نیا موبائیل دکھایا اور کہا کہ میں نے یہ فیس بک استعمال کرنے کیلئے لیا ہے ۔تاکہ ہر وقت دوستوں سے رابطے میں رہوں اس وقت وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ان کا رابطہ تو دنیا سے بہت جلد ختم ہونے والا ہے۔ بٹ صاحب صحیح معنوں میں مسکراہٹیں بکھیرنے والے انسان تھے۔مگر جب اس دنیا فانی سے کوچ کیا تو ہر ایک آنکھ کو نم کر گئے ۔ کہا جاتا ہے نا کہ جو لوگ دنیا میں اچھے ہوتے یا دوسروں کے کام آتے ایسے لوگوں کی آخر ت میں بھی ضرورت ہوتی ہے تبھی وہ جلد ہی اس جہان فانی کو خیر آباد کہہ جاتے ہیں اور اپنے پیاروں کو دلوں میں بس اپنی یادیں چھو ڑجاتے ہیں ۔ جاوید اقبال بھی اس دنیا سے تو چلے گئے پر ان کو انکے چاہنے والے کبھی بھی نہیں بھول پائیں گے۔ اور ان کی یادیں ہمارے دلوں میں ہمیشہ قائم و دائم رہیں گی۔ رب تعالیٰ جاوید اقبال بٹ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔امین
چوہدری محمد اشفاق
بہت دشوار ہو گا تجھے بھلانا
ہر انسان کے حلقہ احباب و دوست میں بے شمار افراد شامل ہوتے ہیں ان میں سے کچھ تو محض نام کے ہی ہوتے ہیں اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جو آپ کے دل میں رس بس جاتے ہیں اور ایسی جگہ پر قبضہ جما لیتے ہیں جہاں پر سے چاہتے ہوئے بھی ان کو ہٹایا نہیں جا سکتا ہے جاوید اقبال بٹ بھی ایسے ہی لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے پنڈی پوسٹ کی پوری ٹیم کو اپنا گرویدہ بنایا ہوا تھا ہنس مکھ ہونے کے ساتھ ساتھ با اخلاق باجرت اور بے پناہ صلاحیتوں کے مالک تھے خاص طور پر مجھ سے انتہائی احترام سے پیش آتے تھے روزانہ کوئی میسج وغیرہ ضرور بھیجا کرتے تھے میری ان سے پہلی ملا قات مرزا پرویز کیانی کی طرف سے دی گئی دعوت میں ہوئی بٹ صاحب نے عبد الخطیب چوہدری سے میرے متعلق دریافت کیا پھر گر مجوشی س مصافحہ ہوا اور اس کے بعد بات دوستی میں بدل گئی پھر ملاقاتوں کی سلسلہ طویل ہوتا چلا گیا اور جب بھی ملتے تو بالکل اپنے محسوس ہوتے پنڈی پوسٹ کی ٹیم کو اپنے اس صحافی بھائی پر فخر تھا کہ ایسا نیک دل انسان ہمارے درمیان موجود ہے ان کی فوتگی کی اطلاع مجھے عبد الخطیب صاحب نے دی اور وہ اس وقت روتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے جب بھی ہماری کوئی تقریب ہوتی تو سب سے پہلے دعوت بٹ صاحب کو ہی دی جاتی تھی کیونکہ ان کے بغیر ہمارا ہر کام ادھورہ تھا جب کبھی کسی مصروفیت کی وجہ سے وہ نہ آسکیں تو دلوں میں کسی چیز کی کمی واضح محسوس ہوتی تھی ہر دلعزیز ساتھی سے ہم جب کبھی بھی کوئی رہنمائی لیتے تو سگے بھائیوں کی طرح ہدا یات جاری کرتے تھے جب پریس کلب روات کی 2014 کے لیے باڈی بنائی گئی تو سب نے متفقہ طور پر جاوید بٹ کو صدر منتخب کیا اور انہوں نے پریس کلب کو بہت اچھے طریقے سے ہینڈل کیا اور ان کی اچھی طبیعت کی وجہ سے 2015 کے لیے بھی انہیں کو صدر بنایا جانا تھا مگر کیا معلوم تھا کہ پریس کلب کے صدر کے ساتھ ساتھ ہم ایک اچھے بھائی سے بھی دور ہو جائیں گے ۔جاوید بٹ صاحب کی وفات سے پنڈی پوسٹ کی ٹیم میں ایک ایسا خلا پیدا ہو گیا جو کئی سال تک پر نہیں ہو سکتا اور پنڈی پوسٹ ایک انتہائی دور اندیش صحافی سے محروم ہو گیا دنیا سے ہر شخص نے جانا ہو تا ہے لیکن جاوید اقبال صاحب کی کمی ہمیشہ محسوس ہوتی رہے گی ایسے بھائی کو بھولنا ہماری ٹیم کے لی بہت مشکل ثابت ہو گا ان کے انتقال کی خبر سن کر یقین نہیں آرہا تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے انتقال کی خبر روات و گر د ونواح اور خصوصاََ پنڈی پوسٹ کی ٹیم کے لیے کسی بڑے حادثے سے کم نہ تھی اور یہ سوچنا بھی محال ہو گیا کہ ایسا مخلص ساتھی اتنی جلدی دوستی ختم کر سکتا ہے مگر کچھ دوست بنتے ہی بچھڑ نے کے لیے ہیں ان کے ساتھ گزر ا ہوا ایک لمحہ بھی بھلا نا دشوار لگتا ہے اللہ تعالیٰ ان کے دوستوں رشتہ داروں اور خصوصا گھر والوں کو صدمہ بر داشت کرنے کی تو فیق عطا فرمائے اور پنڈی پوسٹ کی پوری ٹیم کی طرف سے یہ دعا ہے کہ رب کریم مر حوم کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فر مائے اور ہم کو ان کا مشن جاری و ساری رکھنے کی توفیق عطا فر مائے
شہزاد رضا
کوچ کر گیا وہ ۔۔۔ جو ہنسی خوشی سب کو ملا کر تا تھا
جاوید اقبال بٹ صاحب جو روات پریس کلب کے صدر تھے وہ ہمارے بڑے بھائیوں جیسے تھے بدھ کے روزمیں ایک دوست کے پاس بیٹھا تھا کہ مجھے خطیب بھائی کی فون آئی کہنے لگے شہزاد ؟ بٹ صاحب انتقال کر گئے ایک لمحے کے لیے تو مجھ پر سکوت ساطاری ہوااور میں اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا اور میری آنکھیں بھیک گئیں یا خدایا بٹ صاحب کو کیا ہو گیا مجھے وہ وقت یا د آنے لگا جب میں پنڈی پوسٹ ٹیم کے ہمراہ بٹ صاحب کی عیادت کے لیے راولپنڈی کے ایک ہسپتال گیا (چونکہ ہسپتال انتظامیہ نے بٹ صاحب سے ملنے کے لیے سب کو ایک ایک منٹ کا وقت دیا تھا) اس لیے میرا ایک سے ڈیڑھ منٹ بٹ صاحب کے پاس گزرا جو میں نے ان کی زندگی کے چند آخری لمحات ان کے ساتھ گزارے میں بٹ صاحب کے پاس پہنچ کر ان سے سلام کیا مجھے کہنے لگے آؤ شہزاد۔ کیسے ہو میں نے کہا میں تو ٹھیک ہوں مگر آپ کو کیا ہوا کہنے لگے بس یار جو ہونا تھا وہ ہو گیا یہ سب میری قسمت میں لکھا تھا اور تم مجھے ملنے آگئے ہو نا مجھے پتہ چل گیا کہ تمہارے دل میں میرے لیے کتنا پیار اور محبت ہے میں تمہارا شکریہ ادا کرتا ہوں میں نے مختصرا یہ کہتے ہوئے بٹ صاحب سے اجازت لی کہ میرا آنا کبھی بھی آپ کے دکھو ں کا مداوا نہیں ہو سکتا لیکن میری دعائیں آپکی صحت یابی کے لیے ہمیشہ آپ کے ساتھ رہیں گی یہ کہتے ہوئے میں نے ان سے سلام کیا اور واپس آگیا واپس گھر پہنچا۔تو دماغ کی کھڑکی میں ایک ہی بات دستک دے رہی تھی کہ بٹ صاحب جو چند دن پہلے ہمیں ملے بالکل ہنسی خوشی ان کو اچانک ایسا کیا ہو گیا بہرحال جب تک مجھے نیند نہیں آئی تب تک یہ سوال میرے ذہن میں گردش کرتا رہااس بات میں کچھ شک نہیں کہ قدرت جو چاہتی ہے ہمیشہ اسی کی منشاء کے مطابق ہی ہوا کرتا ہے کبھی کبھی غیر یقینی بات یقینی حالات میں بدل جاتی ہے مجھے جب بٹ صاحب کے فوت ہونے کی خبر ملی تو میں چکرا گیا کہ جس بات کی طرف کبھی ذہن گیا ہی نہیں وہ ہو گیا میرا جاوید بٹ صاحب کے ساتھ تعلق پنڈی پوسٹ کے پلیٹ فارم پر ہی بنا اور یہ سلسلہ ٹوٹ بھی گیا ان کے ساتھ گزرے لمحات ہمیشہ سنہری یادیں بن کر ہمارے دلوں میں نقش ہو چکی ہیں میری دعا ہے کہ میرا مالک بٹ صاحب کو اپنی جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور ان کے اہل خانہ کو اجر عظیم عطا فرمائے ۔آمین
راجہ طاہر محمود
توں نہیں تو تیری یاد سہی
انسان جب عملی زندگی میں قدم رکھتا ہے تو اسکی زندگی میں بہت سے لوگ ملتے ہیں ان میں کچھ ایک بار مل کر ہمیشہ کے لئے جدا ہو جاتے ہیں مگر کچھ لوگ ایک بار مل کر پھر ہمیشہ کے لئے آ پ کے ہو جاتے ہیں ایسے لوگ جو ہمیشہ آپ کے ہو جاتے ہیں ان کو دوست کہتے ہیں مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب بٹ صاحب کے ساتھ میرا پہلا تعلق قائم ہوا جو پھر ہمیشہ ہی قائم رہا گرمی کا موسم تھا عبد الخطیب چوہدری صاحب کے ساتھ ایک گورا چٹا سا آدمی چہرے پر خوبصورت مسکراہت سجائے ہمیں پریس کلب روات کے دفتر میں ملا چوہدری صاحب نے ان کا تعارف جاوید اقبال بٹ صاحب کے نام سے کرایا اس کے بعد کچھ پتا نہ چلا کہ وہ گورا چٹا سا آدمی کیسے میرا ہی نہیں بلکہ ہماری پوری ٹیم کے ہر ممبر کا ایسا گہرا دوست بن گیا اور دوست بھی ایسا کے کوئی بھی محفل اس کے بغیر ادھوری نظر آنے لگی جہاں کہیں بھی جانا ہوتا پہلی کال بٹ صاحب کو ہی کی جاتی یوں تو بہت سی خوبیاں تھیں ان میں مگر دوستوں کے ساتھ پیا ر محبت اور خلوص سے پیش آنا اور مشکل اوقات میں ان کی رہنمائی کرنا ان کا خاصہ تھا کل جب ان کے انتقال کی خبر دوستوں کے ذریعے سے ملی تو یقین نہیں آ یا کہ کوئی اتنا جلدی بھی تعلق توڑ کے جا سکتا ہے مگر کہتے ہیں کہ دنیا کی تمام حقیقتیں ایک طرف اور موت ایک طرف ان کی موت کی خبر سے آنکھوں سے آنسوؤں کی برسات نکل پڑی جو شاید یہی کہہ رہی تھیں کہ توں نہیں تو تیری یاد سہی بلا شبہ ان کی ناگہانی موت سے ان کے دوستوں اور گھر والوں کو ایسا صدمہ سہنا پڑا جس کی ان کو توقع نہیں تھی ان کے ساتھ ہماری رفاقت زیادہ پرانی تو نہیں تھی مگر گہری بہت تھی خدا تعالی سے دعا ہے کہ ان کو اپنی جوار رحمت میں جگہ عطاء فرمائے اور انکے دوستوں اور گھر والوں کو صبر جمیل عطا فرمائے
محسن شہزاد ملک
جاوید بٹ اچھا صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم انسان تھے۔جاوید بٹ کا شما ر ان چندصحافیوں میں ہوتا تھا جو اپنی ذات کے دائرے میں رہنے کے بجائے اجتماعی سوچ رکھنے والا اور اپنے دوستوں کو براداشت کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے ساتھ بے پناہ محبت کرنے والا عظیم شخص تھا۔میری جاوید بٹ سے جب بھی ملاقات ہوئی میں نے کبھی بھی جاویدبٹ کو غصہ کرتے اور ناراضگی کا اظہار کرتے نہیں دیکھاوہ جب بھی ملتا کھلے دل کے ساتھ ملتا ۔جاوید بٹ جب بھی کسی محفل میںآتا ہو وہ محفل کے ماحول کو بدل دیتا اداس محفل کو قہقوں میں تبدیل کر دیتا۔جاوید بٹ ایک نڈر اور بے باک صحافی تھے انہوں نے بحثیت صدر سرور شہید نشان حیدر پریس کلب کلیام اعوان ایک یاد گار صحافتی دور گزارا جاوید بٹ سے بہت کچھ سیکھا ہر لمحہ خوشیا ں بکھیرنے والے جاوید بٹ کی موت کی خبر میرے لئے ایک سانحہ تھی جاوید بٹ آج بظاہر ہمارے ساتھ نہیں لیکن جاوید بٹ کی مسکراہٹیں اور محبتیں ہمارے ساتھ زندگی بھر ساتھ رہیں گی۔اﷲکریم ہمارے پیارے دوست جاوید بٹ کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس کے اعلیٰ مقام عطاء فرمائے امین
ملک افضال چشتی
جاوید بٹ کی شخصیت کا ہر پہلو مذاح اور صحافتی سرگرمیوں سے بھرا پڑا ہے میرے خیال میں وہ ایک اچھا صحافی ہونے سے زیادہ ایک اچھا دوست اور اچھا انسان تھا جاویدبٹ کی یاد ہمیں ہمیشہ آتی رہے گی۔وہ ہماری صحافتی محفلوں رونق تھا۔
ملک نور کلیامی
جاوید بٹ کے ساتھ سرور شہید نشان حیدر پریس کلب کلیام اعوان میں گزرا ہو وقت میری صحافتی زندگی کاایک سنہرا دور تھا۔ ان کی صاف گوئی اور خوش مزاجی کو میں کبھی بہلا نہیں سکوں گا اس سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔{jcomments on}