لاہور (حذیفہ اشرف) تنظیمات اہل سنت پاکستان کے تحت ملک بھر کے مختلف شہروں میں جمعہ المبارک کے اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے علمائے کرام اور مشائخِ عظام نے وزیرِاعلیٰ پنجاب مریم نواز کے ائمہ و خطباء کے لیے اعلان کردہ وظیفے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کی جانب سے دیا گیا یہ اقدام مساجد کے معاملات میں مداخلت کے مترادف ہے، اہل سنت کے کسی امام یا خطیب کے لیے ایسا وظیفہ قبول کرنا ممکن نہیں۔قائدین نے کہا کہ مساجد و مدارس ہمیشہ دین کی خدمت کے لیے قائم رہے ہیں، اور ان کا نظام خالصتاً فی سبیل اللہ چلتا آیا ہے۔ ریاست کو چاہیے کہ وہ دینی اداروں کے انتظامی و مالی معاملات میں دخل اندازی سے گریز کرے۔ علما نے واضح کیا کہ جو حکومت مساجد، خانقاہوں اور مدارس کو کنٹرول کرنے کے لیے مالی ترغیبات استعمال کرے، وہ دراصل مذہبی خودمختاری کو نقصان پہنچا رہی ہے۔
تنظیمات اہل سنت پاکستان کے مرکزی قائدین، جن میں سابق وفاقی وزیر سید حامد سعید کاظمی (ملتان)، سابق وفاقی وزیر و چیئرمین سنی سپریم کونسل پیر محمد امین الحسنات شاہ (بھیرہ شریف)، جمعیت علماء پاکستان کے رہنما ڈاکٹر ابو الخیر محمد زبیر (محمود آباد)، مرکزی جماعت اہل سنت کے امیر صاحبزادہ پیر میاں عبد الخالق القادری (بھرچونڈی شریف)، صاحبزادہ حسن رضا (فیصل آباد)، پیرزادہ محمد امین قادری (مانگی شریف)، سنی اتحاد کونسل کے وائس چیئرمین انجینئر ثروت اعجاز قادری (کراچی) اور جمعیت علماء پاکستان کے رہنما قاری زوار بہادر (لاہور) سمیت ملک بھر کے سینکڑوں علمائے کرام نے مختلف شہروں میں اجتماعات سے خطاب کی
مقررین نے کہا کہ پنجاب حکومت کو چاہیے کہ وہ اہل سنت کے مذہبی اداروں کے خلاف کارروائیاں بند کرے، علما و مشائخ کے گھروں پر چھاپے مارنے، فلیکس اور بورڈز ہٹانے اور خانقاہوں کو بند کرنے جیسے اقدامات ناقابلِ برداشت ہیں۔ اگر حکومت نے اپنا طرزِ عمل درست نہ کیا تو علما و مشائخ ملک گیر احتجاجی لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کے وعدوں کے باوجود اب تک کوئی مدرسہ یا مسجد ڈی سیل نہیں کی گئی، جس سے واضح ہوتا ہے کہ حکمران اہل سنت کو دیوار سے لگانے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ مقررین نے مطالبہ کیا کہ گرفتار علمائے کرام اور مشائخ کو فوری طور پر رہا کیا جائے اور ان کے اداروں کو دوبارہ کھولا جائے۔