ہماری دیگر سیاہ بختیوں میں ایک انتہائی اہم اور بنیادی سیا ہ بختی کسی بھی حوالہ سے منصوبہ بندی کا نہ ہونا ہے۔منصوبہ بندی نہ ہونے کیوجہ سے ترقیاتی کاموں سے عوام کما حقہٗ مستفید نہیں ہو سکتے ۔بعض اوقات استفادہ تو دور کی بات ہے اکثر مقامات یہ ترقیاتی منصوبے باعث رحمت کے بجائے باعث زحمت بن جاتے ہیں۔حالانکہ ’’فزبیلٹی رپورٹ‘‘میں جہاں مالی تخمینہ لگایا جاتا ہے وہاں اس کی دیگر جزیات پر بھی انتہائی باریک بینی سے کام کیا جاتا ہے تا کہ کسی بھی منصوبہ سے عوام کم سے کم مالی اخراجات میں زیادہ سے زیادہ استفادہ کرسکیں ۔ حسب روایت پاکستان کا ہر ایک شعبہ کا ’’باوا آدم ‘‘ ہی نرالا ہے۔یہاں کسی بھی ترقیاتی کام میں عوامی ضروریات کے بجائے کچھ اور مدنظر رکھا جاتے ہے۔ کہیں تیز ترین رفتار سے منصوبہ کو مکمل کرنا مقصود ہوتا ہے تو کہیں کسی کے نجی کاروبار کو فوائد پہنچانا ہوتا ہے اور کہیں کسی کے ’’کلے‘‘ کو مزید مضبوط کرنا ہوتا ہے۔ان تمام معاملات میں بنیادی منصوبہ بندی کو کبھی بھی مد نظر نہیں رکھا جاتا جس کے مظاہر آپ جا بجا دیکھ سکتے ہیں۔اس بات کی گواہی پندی پوسٹ کے صفحات دیں گے کہ ہم بار بار علاقہ کے مختلف ترقیاتی منصوب جات پر تنقیدی جائزہ لیا جاتا رہا ہے۔تاکہ ارباب اختیار کو ان نکات کی جانب متوجہ کیا جا سکے کہ معاملات کو درست کیا جا سکا لیکن کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔دورویہ شاہراہ روات تا کلرسیداں روڈ کے حوالے سے تسلسل کیساتھ اس امر کی جانب متوجہ کرتے رہے کہ اول چوکپنڈوڑی کے مین بازار میں ’’گول چوک‘‘ بنایا جائے۔گول چوک نہ بنے کیوجہ سے سکول ٹائم میں یا کسی بڑی گاڑی کیوجہ سے ایسا ٹریفک جام ہوتا ہے کہ ایک چھوٹے سے بازار میں بھی گھنٹوں تک اس کے اثرات جاری رہتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ چوکپنڈوڑی بازار اور مانکیالہ اوور ہیڈ برج کے علاقہ میں ٹریفک کے بہاؤ کوکنٹرول کرنے کے لئے کسی قسم کے اسپیڈ بریکر نہ بنائے گئے جس کی وجہ سے آئے دن حادثات ہوتے رہتے ہیں کیونکہ بازار قریب آنے کے باوجود بھی رفتار نہیں کرتے اگر ان دو بازاروں میں اسپیڈ بریکرز بنا دیئے جائیں تو حادثات کافی کم ہوسکتے ہیں جس سے انسانی جانیں بچیں گئیں اور ساتھ ساتھ گاڑیاں بھی نقصان سے بچی رہیں گئیں۔جمعرات کے روز اہلیان کلرسیداں کی نمائندگی کلر یوتھ کونسل نے کرتے ہوئے اس بات کا مطالبہ کیا کہ کلرسیداں بازار کی جو سڑک کارپٹڈ کی جارہی ہے اس کو شروع کے منصوبہ کے مطابق دو رویہ کیا جائے کیونکہ ایک خاص کاروباری برادری کے مفادات کے نقصان کے پیش نظر پرانی سڑ ک کو ہی کارپیٹڈ کیا جارہا ہے اور اس کو وسعت نہیں دی جارہی جو کہ اہلیان کلرسیداں کیساتھ زیادتی ہے۔کلرسیداں سے روات سفر کرنیوالے آج کل ایک عجب منظر سڑک پر دیکھ دہے ہیں کہ جگہ جگہ بنائے گے یو ٹرنز کو اب کم کیا جارہا ہے۔یاد رہے کہ روات سے کلرسیداں تقریبا بائیس کلومیٹر طویل ہے اور ارباب اختیار نے ان بائیس کلومیٹر میں پینتیس سے زائد یوٹرنز بنا دیئے تھے جس کی وجہ سے حادثات رونما ہورہے تھے اب خدا خدا کر کے کچھ بہتری کا خیال آیا ہے ۔ چلیں دیر آید درست آید۔ اہم مسلہ جو اس کام میں بھی درپیش ہے کہ دوران کام کوئی اطلاعتی بورڈ نہیں لگایا جاتا جس کی وجہ سے گذشتہ ہفتہ ڈھوک میجر کے قریب ایک موٹر سائیکل سوار اپنی جان کی بازی ہار گیا ۔اس قبل بھی اس دورویہ سڑک کی تعمیر کے دوران ہی کئی مقامات پر حادثا ت ہوئے تھے کہ کسی بھی قسم کا کوئی وارننگ بورڈ نہ لگایا گیا تھا۔ یہی صورتحال اس وقت کلر دوبیرن روڈ پر بھی ہے جہاں پر کام کے دوران قریب سے گزرنے والی گاڑیوں کے حوالے سے کوئی حفاظتی اقدامات نہیں کئے گئے ہیں۔ارباب اختیار سے گزارش ہے کہ جہاں جہاں سڑکوں پر کام ہو رہا ہے وہاں پر ٹھیکیداروں کو پابند کیا جائے کہ وہ جلد از جلد اطلاعتی کتبوں کی تنصیب کریں تاکہ حادثات سے بچا جا سکے۔اب اگر گلیات کی پختگی کی جانب نظر دوڑائی جائے تو کچھ مقامات پر نئے راستے یا کچے راستے پکے کیئے جارہے ہیں۔جبکہ چند ایک مقامات پر ٹوٹ پھوٹ کے شکار راستوں اور گلیوں کو پختہ کیا جارہا ہے۔البتہ زیادہ تر کام مقامی سیاسی راہنماؤں کی ذاتی پسند ناپسند پر کیئے جارہے ہیں جس کی وجہ سے جہاں ملکی وسائل کا ضیائع ہو رہا ہے وہاں پر لوگوں کی مشکلات ختم نہیں ہورہی ہیں۔ پختگی گلیات کے منصوب جات سے قبل یہ ضروری ہے کہ ایسے گاؤں کہ جن کے درمیان سے زیادہ بارشی پانی گزرتا ہے ایسے گاوں میں سیوریج نالوں کی اشد ضرورت ہے کیونکہ کہ زیادہ بارشوں کیوجہ سے پچھلے موسم برسات میں کئی ایک گھروں میں سیلابی پانی داخل ہوگیا تھا اس لئے ضروری ہے کہ ایسے دیہات میں بڑے سیوریج نالوں کی اشد ضرورت ہے۔جہاں دیگر علاقوں میں کئی قسم کے ترقیاتی کام ہور ہے ہیں وہاں دیہات نئی آبادی ،میرا بھکڑال ،جبہ،چھنی،گنگوٹھی مسلماناں،گنگھوٹھی براہمناں، گاڑ،گجرال، گکھڑادھمال ڈھیری مادھو، تل سمیت کئی ایک دیگر دیہات کی مرکزی اور واحد شاہراہ جو چوکپنڈوڑی سے شروع ہوتی ہے کھنڈرات کا منظر پیش کر رہی ہے۔ اس شاہراہ سے روزانہ سینکڑوں اہلیان علاقہ مستفید ہوتے ہیں ۔ یہ شاہراہ پہلے پہل چوکپنڈوری سے گنگھوٹھی مسلماناں تک سابق ایم پی اے محمود شوکت بھٹی نے تعمیر کروائی جبکہ گنگھوٹھی سے گاڑ تک سابق ایم پی اے مرحوم چوہدری خالد نے پختہ کروائی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ یہ شاہراہ اس قدر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکی ہے اس پر گاڑی چلانا انتہائی دشوار ہو چکا ہے لیکن علاقہ سے منتخب ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کی نظر کرم ابھی تک اس اہم شاہراہ پر نہ پڑی ہے۔اہلیان علاقہ کی چوہدری نثار علی خان سے درخواست ہے کہ اس عوامی مسلۂ کو جلد از جلد حل کروائیں۔{jcomments on}
150