پاکستان میں حکومت پیپلز پارٹی کی ہو، ن لیگ کی ہو یا تحریک انصاف کی، آزاد کشمیر کے الیکشن میں حکومتی پارٹی کامیابی حاصل کرتی آ رہی ہے، اس بار بھی حکومتی پارٹی ہی کامیاب ہو گی، کیونکہ ساری ایجنسیاں حکومت کے تابع ہوتی ہیں اور شفاف الیکشن محض ایک خواب ہے، پریذائڈنگ افسران اپنی مرضی کے لگوائے جاتے ہیں، رزلٹ اپنی مرضی کا لیا جاتاہے اور حکومت کے آگے کسی کی ہمت نہیں کہ وہ نہ کرے،بات کسی ایک نشست کی کریں تو ہر جگہ وعدے، دعوے کئے جا رہے ہیں، پیسے اور تعلقات کا استعمال کیا جا رہاہے، ایل اے 39جموں 6 کا الیکشن دلچسپ مرحلے میں داخل ہو چکاہے، پی ٹی آئی کی ڈاکٹر نازیہ نیاز کارنر میٹنگز، جلسے کرنے میں مصروف ہیں، پی ٹی آئی کے وزیر، ایم این ایز، ایم پی ایز، تحصیلی و ضلعی قیادت تسلسل کیساتھ ڈاکٹر نازیہ نیاز کی کمپین کر رہے ہیں، گوجرخان میں کیانی برادران کی پی ٹی آئی میں شمولیت کے بعد طاہر کیانی پلازہ سیاست کا مرکز بن چکا ہے، جبکہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی اندرون خانہ اپنا کام کرنے میں مصروف نظر آرہی ہے، راجہ محمد صدیق اور فخر زمان گھر گھر جا کر ووٹ مانگ رہے ہیں، میرے گزشتہ تجزیے اور اس تجزیے میں ایک بات مشترک ہے کہ مقابلہ ن لیگ اور پی ٹی آئی کے درمیان ہے، پیپلز پارٹی صرف وقت ضائع کررہی ہے، اب کھیل دلچسپ مرحلے میں داخل ہو چکاہے، ووٹرز کو پیسوں کا لالچ دے کر، ترقیاتی کاموں کا لالچ دے کر قائل کیا جا رہاہے، آزاد کشمیر کے الیکشن میں زیادہ تعداد میں پیسہ چلتاہے اور ووٹ خریدے جاتے ہیں، پی ٹی آئی کے عہدیداران کا الزام ہے کہ ن لیگ ووٹ خرید رہی ہے، جبکہ ن لیگ کا الزام ہے کہ پی ٹی آئی ووٹ خرید رہی ہے، پی ٹی آئی حکومتی مشینری کا استعمال کر کے دھاندلی کر رہی ہے، اٹک سے جہلم تک اور کے پی کے میں بھی جموں 6کے ووٹرز موجود ہیں، ووٹ لسٹیں سامنے رکھ کر برادریوں پہ ورک کیا جا رہاہے، وارڈز میں جلسے ہو رہے ہیں، راجہ محمد صدیق کے پاس گزشتہ الیکشنز کا تجربہ ہے، جبکہ پی ٹی آئی کی نازیہ نیاز اور پی ٹی آئی قیادت پہلی بار ان الیکشنز میں انٹرسٹ لے رہے ہیں اس لیے انہیں اس حلقے کا خاطر خواہ تجربہ نہیں ہے، پاکستان اور کشمیر کے الیکشن میں بہت زیادہ فرق ہے، میرے ذرائع کے مطابق راجہ محمد صدیق کے پکے ووٹرز کسی صورت ٹس سے مس نہیں ہوں گے، اگر انہیں مختلف جانب سے مجبور کیا بھی جاتاہے تو وہ حامی تو بھر دیں گے لیکن ٹھپہ انہوں نے شیر پر ہی لگانا ہے، مہاجرین جموں کشمیر کی بہت کم تعداد پی ٹی آئی سے باضابطہ تعلق رکھتی ہے، زیادہ تعداد میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے ورکرز ہیں، گوجرخان شہر کی بات کی جائے تو یہاں پر پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کا مقابلہ دیکھنے میں آرہا ہے، جبکہ تحصیل گوجرخان میں مقابلہ ن لیگ اور پی ٹی آئی کے درمیان ہوگا، اس کے علاوہ پورے حلقہ میں مقابلہ ن لیگ اور پی ٹی آئی کے مابین ہی نظر آرہاہے، موجودہ صورتحال کے مطابق اگر میں تجزیہ کروں تو اس وقت تک ن لیگ کے راجہ محمد صدیق کی پوزیشن تاحال مستحکم ہے، جبکہ دوسری طرف پی ٹی آئی کی ڈاکٹر نازیہ نیاز کو بھرپور حکومتی سپورٹ حاصل ہونے کے باوجود اس قدر عوامی پذیرائی حاصل نہیں ہورہی، جس کی وجوہات میں بڑی وجہ عوام سے رابطہ ہے، ڈاکٹر نازیہ نیاز نے ٹکٹ ملنے سے پہلے جموں 6کی عوام سے کوئی رابطہ نہیں رکھا اور شاید ان کا یہاں سے الیکشن لڑنے کا موڈ بھی اچانک بنا ہو، لیکن راجہ محمد صدیق نے جیت کر بھی اور ہار کر بھی عوام کے دکھ سکھ میں شریک ہو کر ہمدردیاں سمیٹیں، کئی جگہوں پہ ترقیاتی کام بھی کرائے،پی ٹی آئی کو کم ووٹ ملنے کی ایک اور بڑی اور بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ مہنگائی روز بروز بڑھ رہی ہے، گزشتہ روز بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، جموں 6کی عوام پاکستان میں رہتی ہے اور انہیں مہنگائی کا اندازہ ہے اس لیے وہ ووٹ سوچ سمجھ کر دیں گے، تحصیل گوجرخان سے ڈاکٹر نازیہ نیاز کے جیتنے کے چانسز ہیں لیکن یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ وہ یہاں سے الیکشن جیت جائیں گی، راجہ محمد صدیق اور نازیہ نیاز کا کانٹے کا جوڑ پڑے گا، گزشتہ تجزیے کی طرح اس بار بھی یہ بات لکھنا ضروری سمجھتا ہوں کہ جو بھی الیکشن جیتے گا وہ چند سو کے مارجن سے جیتے گا
330