یہ انسانیت سوز واقعہ چودہ اگست کو پیش آیا اس واقعہ کو دیکھ کر اور سن کر سر شرم سے جھک گیا مینار پاکستان کے سائے تلے ایک خاتون ٹک ٹاکر جو کہ وہاں ویڈیو بنا رہی تھی جشن آزادی منانے کیلئے آنے والے کوئی چار سو افراد نے گھیر لیا اور اپنے عمل اور زور سے ثابت کیا کہ وہ انسان تو دور کی بات ہے حیوانوں اور درندوں سے بھی بدتر ہیں ان درندہ نما انسانوں نے اس خاتون کو پکڑا اس کو اچھالا اس کے ساتھ انتہائی بدتمیزی کی اور اس کے کپڑے تک پھاڑ دئیے خاتون کون تھی کیا کر رہی تھی یہاں اس بحث کی کوئی گنجائش نہیں کیوں کہ جو کچھ اس خاتون کے ساتھ ہوا وہ ہمارے ریاست مدینہ کی طرز پر چلنے والے پاکستان معاشرہ میں انسانیت کے مردہ ہونے اور حیوانیت و درندگی کی روش کے زور پکڑنے کی ایک زندہ مثال ہے اس خاتون کی ان جانوروں سے جان کیسے چھوٹی اس بارے میں کچھ علم نہیں لیکن المیہ دیکھیں کہ سرعام ایک نہتی خاتون کے ساتھ انتہائی بدتمیزی کی گئی اس کی بے حرمتی کی گئی اور وہاں موجودچار سو افراد کا مجمع اس بدتمیزی اور بد تہذیبی میں یا تو حصہ دار تھا یا ایک نہتی خاتون کی بے حرمتی پر تماش بین کا کردار ادا کر رہا تھا کوئی اس درندگی کو روکنے والا نہ تھا کسی نے بھی نہ سوچا کہ یہ جو ایک خاتون کے ساتھ بدتمیزی کی جا رہی ہے وہ اسی معاشرے کی بیٹی ہے وہ بھی کسی کی بہن ہے اس واقعہ نے ثابت کیا کہ مسئلہ صرف چند افراد کا نہیں بلکہ اکثریت کا ہے کیونکہ اگر اس طوفان بدتمیزی میں چند ایک افراد ملوث ہوتے اور وہاں موجود اکثریت ایسے چند افراد کے عمل کو روکنے کی کوشش کرتی تو کم ازکم یہ محسوس ہوتا کہ معاشرہ مجموعی طور پر زندہ ہے لیکن جب مجمع میں شامل اکثریت اس حیوانیت کے عمل میں خود حصہ دار ہو اور اس واقعہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر لطف اندوز ہو رہی ہو تو اس سے ثابت ہوا کہ ہمارا معاشرہ مکمل مردہ ہو چکا ہے اور تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے ہمیں بار بار انسانیت کو شرمندہ کرنے والے حیوانیت کے واقعات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے لیکن واقعات ہیں کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں لاہور موٹروے سانحہ ہویا عثمان مرزا کی حیوانیت کا کیس‘ماڈل ٹاؤن کا واقعہ ہو یا نور مقدم کا بہیمانہ قتل‘قبرستان میں دفنائی جانیوالی مردہ خاتون کی بے حرمتی کا واقعہ ہو یا بچوں کیساتھ زیادتی کے نہ ختم ہونے والے واقعات آئے روز نئے نئے رنگ اور روپ میں حیوانیت معاشرہ کا منہ چڑا رہی ہے لیکن کوئی بھی اس حیوانیت اور درندگی کو روکنے کی تدبیر کرتا نظر نہیں آرہا ہر واقعہ کے بعد میڈیا پر شور اٹھتا ہے بڑے بڑے دعوے کئے جاتے ہیں بیانات داغے جاتے ہیں کچھ دن ہیڈلائنز بنتی ہیں سیاستدان بھی بیانات دیتے ہیں حکومت‘ عدلیہ‘ پولیس وغیرہ بھی اس زبانی جمع خرچ میں اپنا پنا حصہ ڈالتے ہیں لیکن عملی طور پر کوئی اقدامات نہیں کئے جاتے چند دنوں بعد ایک نیا واقعہ رونما ہو جاتا ہے سب کی توجہ نئے واقعہ کی طرف مبذول ہو جاتی ہے وہی بیانات وہی میڈیا کا تماشہ اور ڈرامہ وہی ڈائیلاگ دہرا کر خاموش ہو جاتے ہیں ہر بار گرفتاریاں ہوتی ہیں تہیہ کیا جاتا ہے کہ مجرموں کو سرعام عبرتناک سزا دی جائے گی لیکن کوئی اس بنیادی بیماری کی طرف توجہ نہیں دیتا جو دیمک کی طرح اس معاشرہ کوکھوکھلا کر چکی ہے اور وہ ہماری حیوانیت ہے جو بحثیت معاشرہ ہم میں تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے اور اس کی وجہ سے انسانیت ختم ہوتی جا رہی ہے تمام تر بیانات اور ڈائیلاگز کے باوجود آج تک کسی مجرم کو نہ تو عبرتناک سزا دی گئی اور نہ ہی مثالی بنایا گیا کیونکہ یہاں انسانی حقوق والے اور لبرل میڈیا کے علمبردار سب سے بڑی رکاوٹ بن کر سامنے آجاتے ہیں اور یوں حیوانیت کا دفاع کیا جاتا ہے اہم نکتہ یہ ہے کہ معاشرہ کی حیوانیت کے علاج کیلئے کوئی تدبیر کیوں نہیں کی جا رہی ہمارے معاشرہ کو تعلیم و
تربیت اور کردار سازی کی اشد ضرورت ہے جس کے بغیر ہم تباہ و برباد ہو جائیں گے یہ چند واقعات ہماری تباہی کے سفر کا اشارہ ہیں لیکن ہم انسانوں کے روپ میں حیوان پیدا کرتے جا رہے ہیں کیونکہ افراد اور معاشرہ کی تعلیم و تربیت اور کردار سازی ہماری ترجیح میں شامل ہی نہیں اس سلسلے میں ریاست حکومت‘سیاسی جماعتیں‘عدلیہ‘میڈیا‘تعلیمی ادارے‘والدین‘پولیس سب قصوروار ہیں اور ان گھناؤنے اور حیوانیت و درندگی کے ہونے والے واقعات کے ذمہ دار ہیں پاکستانی قوم سے درخواست ہے کہ اب تو جاگ جائیں اور معاشرہ کو درست راہ پر لانے کیلئے کمر بستہ ہو جائیں اور سوچ لیں کہ انسانیت کی مزید کتنی تضحیک کرائیں گے؟اور یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا اور ہمارے ملک کی بدنامی کا باعث بنتا رہے گا؟
279