افعانستان سے امریکی فوجی انخلاء اور طالبان کے بڑھتے ہوئے ااثرورسوخ سے اس خطے کے حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں یہ خطہ خصوصا ََافعانستان ایک بار پھر عالمی منظر نامے پر اہمیت اختیار کر گیا ہے اور سب ہی مستقبل میں بننے والے حالات کا بغور جائزہ لے رہے ہیں کسی بھی ملک کی سرحد یں اس کی قومی سلامتی کی ذمہ دار ہوتی ہیں یہ صرف جغرافیائی سرحدیں نہیں ہوتیں بلکہ آج کے اس جدید دور میں سیاسی اور نظریاتی سرحدیں بھی اہم ہو چکی ہیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کی جغرافیائی نظریاتی اور سیاسی سرحدوں پر تیزی سے حملے کئے جا رہے ہیں جو عناصر پاکستان کو غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں انہیں بر وقت اور موثر جواب دینے کی اشد ضرورت ہے اپنی سرحدوں کے تحفظ کیلئے ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گاپاکستان کو پہلے ہم سوویت یونین کی مدد کے نام پر اور پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر زبردست نقصان پہنچایا اب پاکستان کی سر حدیں کتنی محفوظ ہیں؟اس حوالے سے بہت سے اہم سوالات ہیں جن کا جواب ہمیں خود اپنے ملک میں دینا ہے جب بھی سوال ا ٹھا صرف الفاظ سے مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی اور بعد میں یہ کہا گیا کہ ہم تیار نہیں تھے موجودہ صورتحال میں ہمارے حکمران پالیسی ساز اور فیصلہ ساز یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم اس کیلئے تیار نہیں تھے یہ کہ سب اچانک ہوا افعانستان سے امریکی انخلاء کی بہت عرصے سے تیاریاں کی جا رہی تھیں سوال یہ بھی ہے کہ ہم اس کیلئے اور بعد کی صورتحال کیلئے کتنے تیار ہیں اور اس سلسلے میں ہماری کیا حکمت عملی ہے؟ایک بڑی طاقت کے اس خطے میں آنے کے پیچھے مفادات تھے اور جانے کے پیچھے بھی ایک خاص حکمت عملی ہے امریکا بظاہر افعانستان سے جا رہا ہے مگر اس خطے میں کسی نہ کسی طرح وہ اپنی موجودگی برقرار رکھے گااور اپنے مفادات حاصل کرنے کی کوشش کرے گاافسوس ہے کہ اس وقت کوئی واضح اور پائیدار حکمت عملی عوام تک نہیں پہنچی اور نہ ہی پارلیمنٹ میں اس پر کوئی بحث ہوئی تمام پاکستانی قوم اس وقت سخت پریشانی کا شکار ہے لہذاعوام کو اس حوالے سے مطمئن کیا جانا اشد ضروری ہے یہ کہہ دینا کافی نہیں ہے کہ بھارت بھی افعانستان سے چلا گیا وہاں بھارت کے ہیوی ایئرکرافٹس کی نقل و حرکت معمولی نہیں وہ سرجیکل سٹرائیک کی جسارت بھی کر سکتا ہے لہذا ہمیں بھارت کے مذموم عزائم کو مدنظر رکھتے ہوئے جامع حکمت عملی اختیار کرنا ہو گی اوراسے لوگوں تک پہچانا بھی ہو گا موجودہ صورتحال میں پالیسی ساز اور فیصلہ ساز یقینی طور پر آگاہ بھی ہوں گے اور یقینا اقدامات بھی کر رہے ہوں گے اگر افعانستان عدم استحکام کا شکار رہے گا تو اس کا براہ راست نقصان پاکستان کو ہو گا اور اس سے سی پیک منصوبہ بھی متاثر ہو گا سی پیک منصوبہ مغربی طرف سے چین کیلئے ایک محفوظ راستہ ہے جبکہ جنوبی چینی سمندر کی طرف معاملات نہایت ہی گھمبیر ہیں آسیان ممالک‘اور امریکہ نے مشکلات کھڑی کی ہوئی ہیں چین سمجھتا ہے کہ مغربی چین والا راستہ اس کیلئے اہم ہے لیکن اگر امریکہ اسے یہاں روک لیتا ہے تو چین کیلئے شدید مشکلات پیدا ہو جانے کا خدشہ ہے بائیڈن سے امید تھی کہ وہ ٹرمپ کی پالیسوں پر نظر ثانی کریں گے مگرچین کے معاملے میں وہی ٹرمپ والی پالیسیاں چل رہی ہیں اور اس کیلئے مزید مسائل پیدا کئے جا رہے ہیں امریکہ پاکستان سے اڈے مانگتا ہے جو پاکستان نے اسے دینے سے انکار کر دیا ہے مگر روس نے امریکہ کو اڈے دینے کی پیشکش کی ہے کہ امن وامان قائم کرنے کیلئے ہمارے اڈے حاضر ہیں اگر امریکہ کو وہ اڈے مل جاتے ہیں تو انہیں اس طرح استعمال نہیں کرسکے گا جس طرح پاکستان کے اڈوں کو استعمال کر سکتا تھا خطے کے ممالک حالات کو خراب کرنا نہیں چاہتے اور نہ ہی امریکہ کے ساتھ تصادم کی صورتحال پیدا کرنا چاہتے ہیں اس وقت سب کی توجہ حالات کو نارمل کرنے پر ہے پاکستان نے افعان باڈر پر باڑ لگا کر اسے کسی حد تک محفوظ بنا لیا ہے ہمارے نزدیک یہی بہتر حل تھا باڑ لگانے سے چیک پوسٹیں قائم کرنے کے باوجود بھی ہمیں ہر طرح کی صورتحال کیلئے چوکنارہنا ہو گاچین‘روس‘پاکستان‘ترکی وایران اوردیگر ممالک کے بلاک کو آگے بڑھانا ہو گا امریکہ کو بھی اس بات کا ادراک ہے اگر ہم خود کو اندرونی طور پر مضبوط کر لیں اور ملکی معاملات پر متحد ہو جائیں تو ہمیں کسی سے کوئی خطرہ نہیں ہے
232