آن لائن کاروبار کرنے والوں کو مسائل کا سامنا

وطن عزیز پاکستان میں بے روزگاری اور مہنگائی اپنی حدوں کو چھو رہی ہے یہاں مہنگائی کی وجہ سے غریب عوام کا جینا دو بھر ہو چکا ہے۔ نوجوانوں کو تعلیمی اداروں میں اس قابل نہیں بنایا جاتا کہ وہ اپنے لیے خود روزگار کا انتظام کر سکیں ان کے ذہنوں میں صرف یہی بات ڈالی جاتی ہے کہ وہ کوئی ملازمت کریں گے، پڑھ لکھ کر وہ کوئی افسر بنیں گے کسی سرکاری ادارے میں کام کریں گے۔ جس کی وجہ سے تمام کے تمام نوجوان تعلیم سے فراغت کے بعد نوکریاں ڈھونڈنے کے لیے نکل جاتے ہیں۔ سب سے پہلے سرکاری نوکریوں کے لیے کوشش کرتے ہیں اور اپنی عمر کا ایک بڑا حصہ سرکاری ملازمتوں کی تلاش میں ضائع کر دیتے ہیں، جب عمر کچھ ڈھل جاتی ہے تو وہ پرائیویٹ ملازمتوں کی طرف آجاتے ہیں اور نجی شعبے میں کوئی بھی چھوٹی موٹی نوکریاں شروع کر دیتے ہیں، جو ان کی تعلیمی قابلیت سے کہیں کم ہوتی ہیں اور تنخواہیں بھی اتنی کہ ان سے گھروں کا نظام بھی چلانا مشکل ہوتا ہے۔
تعلیمی اداروں میں کاروبار نہیں پڑھایا جاتا اگر پڑھایا بھی جاتا ہے تو وہ بھی نوکریوں کی غرض سے پڑھایا جاتا ہے۔ نوجوان اچھا خاصا کاروبار پڑ ھ کر نوکریاں تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ ہمارے طلباء کے ذہنوں میں یہ ڈالا ہی نہیں جاتا کہ انہوں نے اپنے کاروبار کرنے ہیں، انہوں نے ملازمتوں کی طرف نہیں جانا بلکہ خود سے کوئی کام کرنا ہے، نئے آئیڈیاز اور نئی سوچ و فکر معاشرے میں متعارف کرانی ہے، نئے نئے طریقے ایجاد کرنے ہیں۔ یہاں اگر کاروبار سکھایا بھی جاتا ہے تو وہ بھی فقط ملازمت کی غرض سے ہی، ایک نوجوان بزنس ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کرنے کے بعد بھی ڈگری اٹھا کر ملازمت ڈھونڈ رہا ہوتا ہے یہ ہماری اجتماعی ذہنی پسماندگی اور ناقص تعلیمی نظام کی بہت بڑی علامت ہے۔
چند نوجوان ہمارے ہاں ایسے بھی موجود ہیں جو اپنا کام اوراپنے کاروبار کرنا چاہتے ہیں مگر ان کے پاس سرمایہ نہیں ہوتا، ان میں سے بہت سے نوجوان ایسے ہیں جو آن لائن کام کرتے ہیں جنہیں فری لانسرز کہا جاتا ہے۔ یہ اپنے لیے خود روزگار کا انتظام کرنا چاہتے ہیں ملازمتیں نہیں تلاش کرنا چاہتے مگر انہیں بہت زیادہ مسائل درپیش ہیں۔ ہمارے ملک کے حالات کی وجہ سے آن لائن بزنس کی کئی بڑی بڑی کمپنیاں یا بڑے بڑے پیمنٹ گیٹ ویز (Payment Gateways)پاکستانیوں کو سہولیات فراہم کرنے سے کترا رہے ہیں

کیونکہ ہمارے ہاں سیاسی اور معاشی حالات اس قدر ابتر ہیں کہ وہ ہمارے ملک کو سہولیات فراہم نہیں کرتے حالانکہ یہاں پر کروڑوں کی تعداد میں نوجوان موجود ہیں ہمارے ملک کی آبادی اچھی خاصی ہے اس کے باوجود سمجھیں کہ وہ اپنا نقصان کر رہے ہیں مگر پاکستان کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ کئی بڑی بڑی اہم ویب سائٹس ہیں جہاں رجسٹریشن کے لیے جائیں اور ملکوں کی لسٹ کھولیں تو پاکستان کا نام ہی نہیں ملتا۔ اس بات پرنہایت افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ملک کو اس قابل ہی نہیں سمجھا جاتا۔ یہاں تک کہ چند روز قبل ایک دوست نے بتایا کہ وہ چینی کمپنی کی ایک ویب سائٹ کے ساتھ کام کرنا چاہ رہے تھے وہاں بھی پاکستان کا نام نہیں تھا، مطلب یہ کہ چینی ویب سائٹس بھی پاکستان کے ساتھ کام نہیں کرنا چاہتیں تو یورپی اور امریکی ویب سائٹس اور اداروں کا تو کیا ہی کہنا۔
جو نوجوان آن لائن کام کر کے اپنی مدد آپ کے تحت اپنے روزگار کا انتظام کرنا چاہتے ہیں انہیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا
ہے، بیرون ممالک سے رقم منگوانا انتہائی مشکل ہے۔ پے پال(Paypal) اور اسٹرائپ (Stripe)وغیرہ جیسی بڑی کمپنیاں پاکستانیوں کو سہولیات فراہم نہیں کر رہیں۔ اگرچہ موجودہ نگران حکومت نے ان کے ساتھ معاہدات کرنے اور انہیں پاکستان میں لانے کی کوششیں شروع کر رکھی ہیں مگر وہ بھی انتہائی سست رفتاری سے چل رہی ہے۔ ان سے قبل تو کسی حکومت نے ان کی طرف توجہ ہی نہیں دی، جس کی وجہ سے نوجوان شدید مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ بھارت کو دیکھیں تو تمام کمپنیاں وہاں کام کر رہی ہیں، تمام کے تمام ادارے بھارتیوں کو سہولیات فراہم کر رہے ہیں لیکن پاکستان کو تو انتہائی اہم اور چیدہ چیدہ ادارے جن کی شدید ضرورت بھی ہے وہ بھی سہولیات فراہم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
لہذا حکومت کو چاہیے کہ اگر وہ نوجوانوں کو ملازمتیں فراہم نہیں کر سکتی تو کم از کم جو نوجوان حکومت پر بوجھ بننے کی بجائے اپنی مدد آپ کے تحت اپنے لیے روزگار کا انتظام کر رہے ہیں ان کی سہولت کے لیے ان کمپنیوں سے بات چیت کرے اور انہیں پاکستان میں آنے سے جو مسائل درپیش ہیں یا جو رکاوٹیں حائل ہیں انہیں دور کرے اور انہیں مکمل سہولیات فراہم کرے تاکہ وہ پاکستانیوں کے ساتھ کام کرنے پر راضی ہوں اور پاکستانی نوجوانوں کو سہولیات فراہم کریں۔ اس طرح جو نوجوان اپنے روزگار کا خود انتظام کرنا چاہتے ہیں ان کے لیے آسانی ہو اور وہ سہولت کے ساتھ اپنے لیے روزگار کا انتظام کر نے کے ساتھ ساتھ ملک میں ڈالرز لے کر آئیں اور ملکی ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں۔


اپنا تبصرہ بھیجیں