قارئین کرام! گوجرخان کے بے پناہ مسائل میں روز بروز اضافے کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان مسائل کو مستقل بنیادوں پر ایک ایک کر کے حل کرنے کی حکمت عملی کسی دور میں مرتب نہیں ہوئی، اس کی ذمہ داری ایڈمنسٹریشن کے ساتھ ساتھ منتخب نمائندوں اور کھڑپینچوں پہ بھی عائد ہوتی ہے،
ایڈمنسٹریٹر، اسسٹنٹ کمشنر، چیف آفیسر، انجینئرز سمیت ذمہ داران اپنے ادوار میں مسائل کے عارضی حل کو ترجیح دیتے ہیں جس کے بعد ان میں مزید بگاڑ پیدا ہوتا ہے جس سے مسائل میں دوگنا سے بھی زیادہ اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے، موجودہ اسسٹنٹ کمشنر گوجرخان نے گوجرخان شہر کو خوبصورت بنانے کیلیے ایک پلان مرتب کیا جس میں ان کو مبینہ طور پر نجی ہاوسنگ سوسائٹیز کی سپورٹ بھی حاصل ہے
جس کے تحت گرین بیلٹ کی تعمیر، عمارات کو رنگ و روغن کرنا، شہر کی حدود میں جی ٹی روڈ پر لائٹنگ کا انتظام کرنا، شجرکاری کر کے شہر کو خوبصورت بنانے سمیت دیگر کام شامل ہیں، اس وقت شہر میں جی ٹی روڈ گرین بیلٹ کا کام مکمل ہو چکا ہے، اس کے ساتھ لگے بلاکس کو رنگ کیا جا رہا ہے، پنڈی تا لاہور جانب شہری حدود میں جی ٹی روڈ کے ساتھ لگے حفاظتی بلاکس کو رنگ کیا گیا ہے
، پودوں کی کانٹ چھانٹ کی گئی ہے، نئے پودے لگائے گئے ہیں، تحصیل آفس کی عمارت کو پینٹ کیا گیا ہے، اب روڈ لائٹس کو بحال کرنے کیلیے نئی کیبل بچھائی جا رہی ہے، گرین بیلٹ کو سرور شہید کالج سے نیو بہگام تک بنایا گیا ہے، گھاس لگایا گیا، نئے پودے لگائے گئے، پرانی جڑی بوٹیوں والی مٹی کو اٹھایا گیا جس سے جھاڑیوں کا خاتمہ ہو گا، یہ سب کام بلاشبہ اپنی جگہ بہت اچھے ہیں
اور ان سب کاموں میں میری معلومات کے مطابق اسسٹنٹ کمشنر کو نجی ہاوسنگ سوسائٹیز کا تعاون بھی حاصل ہے اور ہونا بھی ایسا ہی چاہیے کہ عوام کے کام عوام کی کھال ادھیڑنے والوں سے لینے چاہئیں کیونکہ وہ بھی ایڈمنسٹریشن سے فائدے لیتے ہیں، تصویر کا دوسرا رخ دیکھا جائے تو ان کی جگہ کوئی اور ایڈمنسٹریٹر ہوتا تو وہ اپنی جیب بھرنے کو ترجیح دے سکتا تھا مگر ایک اچھا اور شہر کی فلاح کا کام کرنے پر اسسٹنٹ کمشنر جہاں خراج تحسین کے مستحق ہیں تو دوسری جانب شہریوں کے مسائل دیکھے جائیں تو انکے مقابلے میں یہ کام مجھے بے معنی محسوس ہوتے ہیں
کیونکہ جی ٹی روڈ کو خوبصورت بنانے کا فائدہ صرف یہ ہو گا کہ یہاں سے گزرنے والوں کی آنکھوں میں خوبصورت گوجرخان کا امیج بنے گا،
ڈی ایس پی آفس سے لے کر تکیہ بابا رحیم شاہ تک نالے گندگی اور مٹی سے اٹے ہوئے ہیں اور حالت یہ ہے نالے مکمل بند ہو چکے ہیں، اسی طرح دوسری جانب تکیہ بابا رحیم شاہ سے ٹیکنیکل کالج کے سامنے تک نالے کا نام و نشان ہی مٹ چکا ہے،
حیاتسر روڈ کارنر سے شاہد صراف پلازہ تک نالے کا نام و نشان نہیں ہے اور وہ اس لیے نہیں ہے کہ اس میں مٹی بھری ہوئی ہے اور بارش کا سارا پانی سروس روڈ پہ کھڑا ہوتا ہے جیسے یہ تالاب ہے
تصویر کا دوسرا رخ دیکھا جائے تو اندرون شہر کے مسائل حل ہونے کا نام نہیں لیتے، کہیں صفائی کا مسئلہ ہے تو کہیں گلیوں کی ٹوٹ پھوٹ ہے، کہیں واٹر سپلائی کا مسئلہ ہے تو کہیں سٹریٹ لائٹس نہیں ہیں، روز مرہ کی اشیاء من مانے داموں بیچی جا رہی ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں، تجاوزات کیخلاف ابھی گزشتہ ماہ سے آپریشن شروع ہوا ہے جو پورا ایک سال نہیں ہو سکا
مگر جونہی بلدیہ ٹیم بازار سے روانہ ہوتی ہے تو دوبارہ تجاوزات وہیں قائم ہو جاتی ہیں یعنی لوگ قانون کو سمجھتے ہی کچھ نہیں یا پھر قانون سمجھانے سے قاصر ہے، جی ٹی روڈ پر ریڑھی بازار لگایا جاتا ہے اور اس کیخلاف کافی بار آپریشن ہو چکا ہے اور اعلان یہ ہوتا ہے کہ ریڑھیاں واپس نہیں ہوں گی مگر دوسرے دن پھر وہیں سب کچھ موجود ہوتا ہے تو پھر قانون تو نہ ہوا ”پھجے کی منج ہو گئی” جس کو جو مرضی کھول کر لے جائے اور جہاں مرضی باندھ دے، نالوں کی صفائی کا یہ عالم ہے کہ شلجم سے مٹی جھاڑنے والی مثال صادق آتی ہے اور اس حوالے سے بلدیہ میں باقاعدہ نالہ صفائی ٹیم موجود ہے
، ڈی ایس پی آفس سے لے کر تکیہ بابا رحیم شاہ تک نالے گندگی اور مٹی سے اٹے ہوئے ہیں اور حالت یہ ہے نالے مکمل بند ہو چکے ہیں، اسی طرح دوسری جانب تکیہ بابا رحیم شاہ سے ٹیکنیکل کالج کے سامنے تک نالے کا نام و نشان ہی مٹ چکا ہے، حیاتسر روڈ کارنر سے شاہد صراف پلازہ تک نالے کا نام و نشان نہیں ہے اور وہ اس لیے نہیں ہے کہ اس میں مٹی بھری ہوئی ہے اور بارش کا سارا پانی سروس روڈ پہ کھڑا ہوتا ہے جیسے یہ تالاب ہے اور پھر وہ پانی زبان حال سے کہہ رہا ہوتا ہے ”ان پانیوں میں تیر کر آ سکو تو آ جاو”،
یہی حالت اندرون شہر کے نالوں کی ہے، اس طرح کے بیشمار مسائل جن کا عارضی حل ڈھونڈنے کی کوشش کی جاتی ہے اور وہ ایڈمنسٹریشن کے گلے تو پڑتے سو پڑتے ہیں اس عذاب میں شہری سالوں کیلیے پڑ جاتے ہیں، کسی کے پاس کوئی پالیسی نہیں کہ کس معاملے کو کس انداز میں بہتر اور مستقل حل کیا جا سکتا ہے، راقم نے اسسٹنٹ کمشنر کو ایک جگہ کے بارے میں بریف کیا کہ اس کو ایسے خوبصورت بنایا جا سکتا ہے تو انکا جواب یہ تھا کہ ہمارے پاس فنڈ نہیں ہیں ہم کہاں سے کریں، حالانکہ یہ کام نجی سطح پہ شہریوں اور سول سوسائٹی سے کرائے جا سکتے ہیں مگر اس کیلیے اہلیت درکار ہے،
جیسا کہ گرین ٹیم نے لاکھوں روپے لگا کر ریلوے پارک بنایا، گوجرخان چوک میں خوبصورت پارک بنایا جس میں گھوڑے کا مجسمہ بھی نصب ہے اور اب سرکاری سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے اس پارک کی حالت زار قابل رحم ہو چکی ہے حفاظتی جنگلے ٹوٹ چکے ہیں، اس کے اردگرد ریڑھی بازار لگا ہوتا ہے اور جی ٹی روڈ پر سفر کرنے والے اس شہر کا امیج ”ریڑھستان” کے طور پہ لے کر یہاں سے روزانہ گزرتے ہیں
۔شہر کے بے پناہ مسائل پر راقم دس سال سے لکھتا چلا آ رہا ہے اور پہلے بھی کئی بار تحریر کر چکا ہوں اور اب بھی اس نتیجے پر ہوں کہ م ختصر بات یہ ہے کہ اس شہر کو سدھارنے کیلیے 10 سالہ ماسٹر پلان کی ضرورت ہے جس پہ کام ہونا چاہیے ورنہ ہم یونہی پیٹتے رہیں گے اور یہاں دیہاڑیاں لگانے والے آتے رہیں گے۔ والسلام