راجہ غلام قنبر
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہمارے اکثر قومی و صوبائی ممبران اسمبلی علاقائی و جغرافیائی ضرورتوں کے بجائے اپنے ذاتی سیاسی مقاصد کو مدنظر رکھ کر ترقیاتی منصوبے بناتے ہیں۔ایسے منصوبے جو صرف سیاسی مفادات کو مدنظر رکھ کر ترتیب دیے جاتے ہیں۔ان سے عوام کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ایسے منصوبہ جا ت کی کثریت قومی خزانہ پر بوجھ بنتی ہے۔گذشتہ کچھ دنوں سے ضلع کوہسار کی خبر گرم ہے متذکرہ ضلع کوہسار میں تحصیل ہائے مری،کوٹلی ستیاں اور کہوٹہ شامل ہوں گئیں جبکہ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ تحصیل کلر سیداں بھی مجوزہ ضلع کا حصہ ہو گی۔اس خبر کے عام ہوتے ہی کہوٹہ اور کلر کی عوام نے ضلع کوہسار کو نامنظور کر دیا اور اس سلسلے میں احتجاج بھی کیا جا رہا ہے مجوزہ ضلع کا صدر مقام مری کو بنانے کی تجویز ہے اگر بالفرض محال نیا ضلع کوہسار بنایا جاتا ہیاور اس کا صدر مقام مری کو بنایا جاتا ہے تو اس سے جہاں کلر اور کہوٹہ کی عوام ذلیل وخوار ہوں گے وہا ں کوٹلی ستیاں کے اکثریتی عوام پریشانی میں مبتلا ہو جائیں گے مجوزہ ضلع کوہسار کے صدر مقام تک پہنچنے کے لیے کلر ،کہوٹہ کی مکمل اور کوٹلی ستیاں کی اکثریت کو پنڈی / اسلام آبادسے ہوتے ہوئے مری جیسے مہنگے شہر جانا ہو گا یاد رہے کہ سیاحتی مقامات دوسرے علاقوں کی نسبت مہنگے ہوتے ہیں اگر موجودہ وزیرعظم نے علاقہ کی ترقی کے لیے لیے کوئی قدم اٹھانا ہی ہے تو وہ ضلع گوجرخان بنائیں۔جو کہ پوٹھوہا ر کے باسیوں کا دیرینہ مطالبہ ہے۔گوجرخان تحصیل پنجاب کی ایک بڑی تحصیل ہے۔تحصیل گوجرْخان میں چونتیس یونین کونسلز ہیں جبکہ گوجرخان میونسیپل کمیٹی کی انیس وارڈز ہیں قومی اسمبلی کی ایک اور صوبائی اسمبلی کی دو نشستوں پر محیط تحصیل ہے۔ تحصیل گوجرخان میں اس وقت تین تھانے امن وامان برقرار رکھنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔دولتالہ کا قصبہ اور اس سے ملحق دیہات ہر لحاظ سے تحصیل کا درجہ پانے کے مستحق ہیںیوں تحصیل گوجرخان کو دو تحصیلوں میں تقسیم کرنا وقت کی ضرورت ہے گوجرخان کو ضلع بناتے ہوئے صدر مقام بھی گوجرخان شہر کو بنایا جائے تحصیل کلر سیداں کو ضلع گوجرخان کا حصہ بنایا جائے تو ضلعی صدر مقام پنڈی کی نسبت زیادہ نزدیک ہو جائے گااس طرح تحصیل پنڈی کے دیہی مراکز روات اور چک بیلی کو بھی تحصیل کا درجہ دے کر گوجرخان ضلع میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ بالخصوص چک بیلی خان کا علاقہ ہر لحاظ سے تحصیل کا درجہ پانے کا مستحق ہے اور وہاں کی عوام کا بھی یہ دیرینہ مطالبہ ہے۔جغرفیائی، علاقائی اور سماجی مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے ضلع گوجرخان وقت کی اشد ضرورت ہے۔جبکہ گوجرخان میں نون لیگ اپنی گرتی ہوئی ساکھ اور آئندہ انتخابات میں یقینی شکست سے بچنے کے لیے ہی سہی پوٹھوہار کی عوام پر رحم کریں اور گوجرخان ضلع بنا کر عوام کی دعائیں لیں پی پی کے سابقہ دور حکومت میں ” گوجرخان بناؤ تحریک ” بڑے زوروں پر تھی اس تحریک کیوجہ سے 2013 میں راجہ پرویز اشرف اربوں کے ترقیاتی کام کروانے کے باوجود انتخابات ہار گئے۔2013 میں جب مرکزی و صوبائی حکومت کی تخت پر نون لیگ براجمان ہے تو اس دوران پتہ نہیں یہ تحریک کدھر گم ہو گئی ہے۔ یاد رہے کہ پیپلز پارٹی کے لیے کسی بھی طور پر ممکن نہیں تھا کہ وہ ضلع گوجرخان بناتی کیونکہ صوبائی لیگی حکومت اس راہ میں رکاوٹ تھی۔ اب چونکہ مرکز اور صوبہ دونوں پر شریفیہ خاندان کی حکومت ہے تو ضلع گوجرخان کا بن جانا ممکن ہے۔اہلیان پوٹھوہار یاد رکھیں کہ اگر ضلع کوہسار بن گیا تو پھر ضلع گوجرخان نہیں بن پائے گا۔
126