146

کلرسیداں آبنوشی اسکیم میں کرپشن کا انکشاف

جاوید کوثر کی تین سالہ کارکردگی

جس ملک کی تہتر فیصد یا غالباً اس سے بھی کچھ زیادہ آبادی کو رہنے کے لیے گھرننگ چھپانے کو کپڑا اور پیٹ بھرنے کو روٹی میسر نہیں اس ملک کے چند مخصوص خاندان اور ان خاندانوں کی پشت پناہی کے حامل سرکاری اداروں میں بیٹھے افسران نے لوٹ مارکو اپناحق سمجھ رکھا ہے

اس سلسلے میں کسی بحث کی گنجائش نہیں اور نہ ہی کسی سیاسی نظریے یا سماجی فلسفے کا حوالہ دینے کی ضرورت ہے یہ تو ایک بلکل صاف اورسیدھی سی بات ہے

کہ اس ملک کو آزادی دلوانے میں قوم کے ہر طبقے نے اپنا رول ادا کیاتھا ملکی آزادی پوری قوم کی قربانیوں اور کوششوں کا نتیجہ ہے لیکن چند بے ضمیر موقع پرست اور قابو یافتہ افراد نے اسے لوٹنے کھسوٹنے کا ذریعہ بنا رکھا ہے اور سماج میں ان تباہ کن اور ہلاکت آفریں رجحانات کو فروغ دینے کا لائسنس حاصل کرلیا ہے

اس بے ضمیر گروہ کی موجودگی میں ایک شریف صحت منداور باضمیر سماج کے قیام کا تصور دیوانے کا خواب بن چکا ہے موجودہ دور پاکستان کی زندگی کا بدترین دور ہے اس دور میں سماج کی منفی قدورں کو استحکام حاصل ہورہا ہے ملک معاشی نفسیاتی اخلاقی تہذہبی اور سیاسی اعتبار سے دیوالیہ ہوچکا

اور اب اس کا ازالہ مشکل ہی نہیں ناممکن لگتا ہے معاشرہ دیسی ہو یا بدیسی لالچ اور مفادات کے فارمولے ایک ہی جیسے ہوتے ہیں لیکن اپنے ہی ملک کو لوٹنے کی جو وارداتیں اور فارمولے ہمارے یہاں رائج ہیں دنیا کی اقوام ان بارے کبھی سوچ بھی نہیں سکتی

کیونکہ ان معاشروں میں سزا اور جزاء کے قانون پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے کہتے ہیں حکمت ہو یاڈاکٹراس کے پاس ہر مرض کا علاج ہوتا ہے لیکن بعض ایسے موذی مرض لاحق ہوجاتے ہیں

جن کا علاج کہیں ممکن نہیں ہوتا خصوصاً وہ آزار جو روح کی گہرایوں میں سرایت کرچکے ہوں کرپشن بھی ایک ایسا ہی مرض ہے جس کا علاج ممکن رہا اینٹی کرپشن کامحکمہ جو کرپشن پکڑنے اور کرپٹ سرکاری ملازمیں ن کی سرکوبی کے لیے بنایا گیا اس ادارے بارے ایک مزاحیہ بات کہی جاتی ہے

کہ وہ رشوت لینے کو پکڑتے ہیں اور دینے والے کو چھوڑ دیتے ہیں کوئی ادارہ ایسا نہیں جو لوٹ مار سے محفوظ نہیں ہے چند روز قبل ایک نیوز پیپر کی خبر نظر سے گذری جس میں بلدیہ کلر سیداں میں لوٹ مار کی داستان بیان کی گئی

رپورٹ کے مطابق بلدیہ کلر سیداں کے زیر انتظام پانی سپلائی کے منصوبے میں وسیع پیمانے پر خرد برد کی گئی.ریورٹ کے مطابق اس منصوبے میں مشینری کی تنصیب کے لاکھوں روپے کا فنڈ مختص کیا گیا لیکن کرپشن کے رائج طریقہ کار کے تحت نئی مشینری کے بجائے اونے پونے

پرانی موٹریں اور دیگر پرانے الات نصب کرکے رقم ہڑپ لی گئی بتایا گیا ہے کہ اس منصوبے میں ناقص میٹریل کے استمال کے باعث گذشتہ ایک برس سے متعدد مقامات پر پانی رسنے کا عمل جاری ہے جس کی مرمت کے نام پر بلز بنائے جاتے ہیں نیوز میں اس کرپشن میں مین کردار چیف آفیسر بلدیہ کلرسیداں کا بتایا گیا ہے

اطلاع یہ بھی ہے اسسٹنٹ کمشنر کلرسیداں نے بلدیہ کلر سیداں کے سابق ٹھیکیدار عبدالطیف بھٹی کے ہمراہ اس اسکیم کا دورہ کیا جس کے دوران اس لوٹ مار کاانکشاف ہوا

اس موقع پر صحافیوں کو اس اسکیم خرد برد بارے آگاہی دی گئی رپورٹ کے مطابق چیف آفیسر بلدیہ پرائس کنٹرول مجسٹریٹ بھی ہیں لیکن یہ کام بھی انہوں نے اپنے ایک نائب قاصد کو دے رکھا ہے

جو حیران کن امر ہے رپورٹ کے مطابق اسسٹنٹ کمشنر کلر سیداں نے اس واٹر اسکیم میں مبینہ کرپشن بارے مفصل رپورٹ ڈپٹی کمشنر راولپنڈی اور سکریٹری بلدیات پنجاب کو ارسال کردی گئی ہے

جس میں اس معاملے کی شفاف تحقیقات کی تجویز دی گئی ہے لیکن اس سماج میں یہ ناممکن سی بات ہے اس رپورٹ کی اشاعت کے بعد حکومتی جماعت کے ارکان انجینئر راجہ قمر السلام اور رکن پنجاب اسمبلی راجہ صغیر کی ذمہ داری بنتی ہے

کہ اس اسکیم میں کرپشن کے الزامات کی انکوئری کو ممکن بنائیں اور اگر الزام درست ثابت ہو تو اس پر محکمہ جاتی کاروائی کے عمل میں لاکر لوٹی رقم ریکور کروایں

لیکن شاید یہ خواہش پوری نہ ہو کہ کرپٹ افراد بہت طاقتور ہوتے ہیں۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں