گزشتہ دنوں پٹرولیم مصنوعات میں کمی کی صورت میں اس ملک کے عوام کو بڑی دیر کے بعد کچھ ریلیف ملتا ہوا محسوس ہوا ۔اگرچہ عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں جون جولائی سے کم ہو چکی تھیں ، مگر ہمارے ملک میں ان قیمتوں کا از سر نو تعین کئی ماہ بعدکیا گیا لیکن چلو دیر آئے درست آئے۔پٹرولیم مصنوعات سے جڑی ضرویات زندگی کی تمام چیزوں پر اس کے براہ راست اور فوری اثرات کا مرتب ہونا ایک قدرتی امر ہے۔پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کمی سے لیکر اشیائے خور دو نوش سمیت تما م یوٹیلیٹیز کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی کی توقعات وابستہ کی جارہی ہیں۔اس وقت بھی جو قیمتیں مقرر ہیں یہ ابھی بھی عالمی مارکیٹ کے مقابلہ میں بہت زیاہ ہیں ،پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں اس سے بھی کم کی جاسکتی تھیں،پٹرول کی فی لیٹر قیمت ساٹھ اور ستر روپے کے درمیان بڑی آسانی سے مقرر کی جاسکتی تھی ۔اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ بجلی کے فی یونٹ ریٹس بھی کم کر دئے جائیں ،ماہرین کے مطابق پٹرولیم مصنوعات میں حالیہ کمی کے بعد فی یونٹ ریٹ میں دو سے ڈھائی روپے کی کمی لائی جاسکتی ہے۔پاکستان میں فی یونٹ بجلی کے ریٹس خطے کے تمام ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔اور اب تو یہ بات واضح ہوکر سامنے آچکی ہے کہ گزشتہ دو ماہ کے دوران بجلی صارفین سے جس ظالمانہ طریقے سے بجلی بلوں کی مد میں اربوں روپے نکال لئے گئے ہیں ،اس سے ظاہر یہی ہو رہا ہے کہ یہاں بڑی خاموشی سے اور بغیر بتائے مختلف ظالمانہ ٹیکسز کے نفاذ سے حکومت اپنے اخراجات پورا کر نے کی خاطر عوام کی چیخیں نکال دیتی ہے۔ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم پانی کے ذریعے تو سستی بجلی بنا نے سے رہے،نتیجا ہمیں آئیل اور گیس سے مہنگی بجلی بنا نی پڑ رہی ہے۔مہنگی بجلی کی وجہ سے نہ صرف عام صارف بلکہ زندگی کا ہر شعبہ بہت زیادہ متاثر نظر آرہا ہے ،انتہائی مہنگی بجلی کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثرہ شعبہ زراعت کا شعبہ ہے،حکومتی عدم توجہی کا شکار یہ شعبہ اور اس سے وابستہ چھوٹے کسان اورزمیندار سب سے زیادہ متاثر نظر آرہے ہیں،زراعت کی ترقی اور چھوٹے کسانوں کی حالت زار میں بہتری کیلئے موجودہ حکومت کے پاس نہ تو کوئی فارمولا ہے اور نہ حکومت اس طرف توجہ مبذول کر نا چاہتی ہے۔پہلے لوڈشیڈنگ کیا کم تھیں کہ حکومت نے اوپر سے بجلی کی قیمتیں اس قدر بڑھا دی ہیں کہ ٹیوب ویل مالکان کی ایک بہت بڑی تعداد اپنے ٹیوب ویلز بند کر نے کا سوچ رہی ہے۔زراعت کے شعبہ میں ترقی کے بغیر ترقی کا خواب کیونکر شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے اور کس طرح صنعت کا پہیہ اسے ترقی دئے بغیرحرکت کر سکتا ہے اس کا جواب تو حکومت بڑے بڑے عہدوں پر براجمان حکمران ہی دے سکتے ہیں۔اس ملک کا کسان مہنگائی کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے،مہنگی بجلی،مہنگی کھادیں ،بیج اور ملاوٹ شدہ زرعی ادویات سے مقابلہ کرتا اس ملک کا کسان گزشتہ کئی سالوں سے اپنی آواز حکومتی ایوانوں تک پہنچا نے کی کوشش کر رہا ہے مگر لگتا ہے کہ موجودہ حکومت کی زراعت کش پالیسی اتنی آسانی کے ساتھ اور اتنی جلدی تبدیل ہو نے والی نہیں ہے۔چاہئے تو یہ تھا کہ موجودہ حکومت ہارڈ ایریاز کے کسانوں کو ریلیف فراہم کرتی اور بجلی کے فی یونٹ ریٹس میں انھیں کچھ نہ کچھ سبسڈی دی جاتی مگر ایسا کچھ بھی نہیں کیا جارہا۔کسان ان انتہائی دگر گوں حالات میں بھی محنت و مشقت کے ذریعے جو کچھ پیداوار حاصل کرتا ہے اس پر بھی ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے،کپاس کی مثال ہی لے لیجئے ،اس وقت کپاس کی نئی فصل مارکیٹ میں آرہی ہے مگر کپاس کے فی من اگر ریٹس پرنظر ددوڑائیں تو وہ شرمناک حد تک کم ہیں،فی من جو خرچہ ایک کسان خرچ کر کے پیداوار حاصل کرتا ہے اس وقت حکومتی ریٹس اس سے بھی کم ہیں،محض چند ذخیرہ اندوز پوری مارکیٹ کو یر غمال بنا کر من چاہے ریٹس کا تعین کرتے ہیں ،کسان بیچارہ سستی اجناس کو فروخت کر نے کیلئے مجبور ہوتا ہے کیونکہ وہ تو سٹاک نہیں کرسکتا اپنی فصل ،اسے تو اگلی فصل کی کاشت کیلئے رقم درکار ہوتی ہے۔چاہئے تو یہ تھا کہ حکومت خود کسان کو سپورٹ پرائس کے ذریعے ایک معقول ماوضہ دیتی اسکی محنت کا ،مگر اس کے برعکس اس سے اسکی محنت کا معاوضہ دینے کی بجائے الٹا ذلیل و خوار کیا جارہا ہے۔{jcomments on}
152