177

پرائس مجسٹریٹ دوکانداروں کیلئے خوف کی علامت بن گئے

چوہسری اشفاق/پرائس مجسٹریٹ کا بڑھتی ہوئی مہنگائی کو کنٹرول کرنا ہوتا ہے ہر انتظامی آفیسر پرائس مجسٹریٹ نہیں ہوتا ہے بلکہ حکومت کی طرف سے ان کو اس حوالے سے سپیشل اختیارات سونپے جاتے ہیں جنہیں وہ استعمال میں لاتے ہوئے ناجائز منافع خوروں ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کاروائیاں کرتے ہوئے ان کو جرمانے و سزائیں سناتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ ان انتظامی افسران کے کچھ دائرہ کار بھی طے کیئے جاتے ہیں ان کی کچھ حدود بھی مقرر کی جاتی ہیں جس کے اندر رہتے ہوئے وہ اپنے اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی اپنی مقرر کر دہ حدود میں کاروائی کرنے کے پابند ہوتے ہیں پرائس مجسٹریٹ صاحبان کی قانونی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ ان کی کچھ اخلاقی ذمہ د اریاں بھی ہوتی ہیں وہ جہاں بھی جائیں سب سے پہلے دکاندار حضرات کو اپنا تعارف کروائیں کہ ہمیں گورنمنٹ کی طرف سے یہ اختیارات سونپے گئے ہیں ہمارا کام آپ کو چیک کرنا ہے وہ دکانداروں کیلیئے خوف کی علامت نہ بنیں بلکہ یہ جرمانے آرام اور اخلاقی دائرہ کار میں رہتے ہوئے بھی کیئے جا سکتے ہیں بعض انتظامی آفیسرز اس قدر دھڑلے دار طریقے سے دکانداروں پر چڑھائی کر دیتے ہیں جس سے وہ خوف کا شکار ہو جاتے ہیں بلکہ بعض جگہوں پر تو یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اکثر پرائس مجسٹریٹس اپنی گاڑیوں سے نیچے ہی نہیں اترتے ہیں وہاں سے ایک پولیس والے کو بھیجتے ہیں جو سیدھی جرمانے کی چٹ کاٹ کر ان کے ہاتھ میں تھما دیتا ہے اور دکاندار بے چارہ منہ دیکھتا رہ جاتا ہے کہ اس کے ساتھ ہوا کیا ہے متعلقہ مجسٹریٹ کی یہ قانونی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بذات خود دکاندار کے پاس جائیں اور اسے اس پر لگائے جانے والے الزام سے متعلق آگاہ کریں ان کو ان کی غلطی بتائیں اور ثابت کریں کہ واقع ہی وہ اشیاء مقرر کر دہ قیمت سے زائد میں فروخت کر رہے ہیں ان کو نہ صرف جرمانے کریں بلکہ ان کو ان کی غلطی پر شرمندہ کریں اور ان کی غلطی کا احساس دلائیں دوسری طرف ہمارے ہاں یہ رواج ہی نہیں ہے کہ کوئی بھی دکاندار اتنی جرات کرے کہ وہ کسی پرائس مجسٹریٹ سے اتنا پوچھ ہی لیں کہ آپ کون ہیں اپنے اتھارٹی چیک کروائیں کہ آپ واقع ہی پرائس مجسٹریٹ ہیں دکانداروں کو بھی اخلاقی جرآت کا مظاہرہ کرنا چاہیے کیونکہ وہ کاروبار کر رہے ہیں کوئی چور نہیں ہیں کہ جو بھی آئے وہ اس کے سامنے سر خم کر دیں ان کا اپنی غلطی بارے استفسار کرنا ان کا قانونی و اخلاقی حق بنتا ہے کیوں کہ وہ ٹیکس ادا کرتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ دکانداروں کی یہ بھی اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بھی اس دوران اخلاقیات کو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ پرائس مجسٹریٹ صاحبان کے ساتھ کوئی بھی غیر اخلاقی یا بدتمیزی اور بدکلامی سے گریز کریں اگر ان کی غلطی بنتی ہے تو وہ اس کو تسلیم کریں مجسٹریٹ صاحبان اور دکاندار حضرات کے درمیان تعارف نہ کرنے اور نہ کروانے کی وجہ سے بعض اوقات جعلی پرائس مجسٹریٹ بھی جعلی جرمانے ڈال کر اپنی دیہا ڑی لگا کرغائب ہو جاتے ہیں اور دکانداروں کو بہت بعد میں پتہ چلتا ہے کہ ان کے ساتھ تو ہاتھ ہوگیا ہے اگر دونوں فریق صحیح طریقے سے اپنی اپنی قانونی و اخلاقی ذمہ داریوں کا عملی مظا ہرہ کرنے کا رواج بنا لیں تو جعلی لوگوں کا راستہ روکا جا سکتا ہے اکثر اوقات یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے جب پرائس مجسٹریٹ صاحبان دکانداروں پر اپنا رعب جمانے کی خاطر غیر اخلاقی باتوں کا سہارا لیتے ہیں تو اس دوران لڑائی جھگڑے کی نوبت آ جاتی ہے اور مجسٹریٹ اصلی ہونے کے باوجود اپنی عزت بچانے کی خاطر وہاں سے بھاگنے کو ترجیح دیتے ہیں اور دفاتر مین پہنچ کر دکاندار پر کار سرکار میں مداخلت کا مقدمہ درج کروا دیتے ہیں جس کا نتیجہ یہ سامنے آتا ہے کہ شہر کے دکاندار ہڑتال کر دیتے ہیں اور مجسٹریٹ کو مجبوری وہ کیس واپس لینا پڑ جاتا ہے اگر تمام فریق اپنی قانونی ذمہ داریوں پر عمل پیرا رہیں تو اس طرح کے واقعات کی نوبت ہی نہ پیش آئے جن کی وجہ سے امن و امان کا مسئلہ پیش آئے حکومت کو بھی اس بارے قوانین میں تبدیلی لانا ہو گی کہ پرائس مجسٹریٹ صاحبان کو موقع پر جرمانے وصول کرنے کا اختیار ہی ختم کر دیں بلکہ دکاندار جرمانے بینکوں کے زریعے حکومت خزانے میں جمع اکروائیں کلرسیداں میں اس وقت 4پرائس مجسٹریٹ موجود ہیں جن میں اسسٹنٹ کمشنر رمشا جاوید ، تحصیلدار محمود احمد بھٹی نائب تحصیلدار مسعود احمد اور ٹی ایم اے کے سی ای او عمران اختر شامل ہیں ان کے علاوہ ایک اور بھی اسپیشل پرائس مجستریٹ اسسٹنٹ ڈائریکٹر زراعت (توسیع) بشارت محمود اعوان بھی ہیں امید کی جاتی ہے کہ مقر رکردہ پانچوں پرائس مجسٹریٹ عوام اور دکانداروں سے مکمل تعاون کریں گے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں