پہلے دور میں ہمارے والدین کے زمانے کے لوگوں میں طلاق کا لفظ بھی گالی کے طور پر سمجھا جاتا تھا کہ لوگ کہتے تھے “ہم میں طلاق نہیں دیتے”۔ اس آخری نسل میں میاں بیوی کے تعلقات بھی خوشگوار ہوتے تھے، سب کے گھر بھی آباد ہوتے تھے۔ اولاد بھی نیک سیرت، شرم و لحاظ، عزت کرنے والی ہوتی تھی۔
خواتین کھانا پکاتے ہوئے باوضو ہوتی تھی کھانا بھی مزے دار ہوتا اور تمام کھانے والے بھی سعادت مند ہوتے تھے اب ہمارے زمانے میں بچہ ابھی پیدا ہوتا ہے ماں کی زندگی سے آرام سکون ختم ہو جاتا ہے۔ ساری رات یہ بچے جاگتے ہیں روتے ہیں مائیں بے حال گودیوں میں لیکر چکر لگا کر چپ کرواتی ہیں اور سارا دن یہ موصوف سوتے تھوڑے سے بڑے ہوتے ہیں جب بولنا شروع کرتے ہیں تو اتنی ضد کرتے ہیں
کہ ہر بات میں اپنی من مانی کرتے ہیں۔ مائیں بچے پالنے میں اپنی صحت خراب کر لیتی ہیں آنکھوں کے گرد ہلکے پڑ جاتے ہیں وزن کم ہو جاتا ہے۔ نیند تو رخصت ہو جاتی ہے۔ پھر بچے سکول جانا شروع ہوتے ہیں
تو سبق نہیں پڑھتے۔ مطلب ہر ہر قدم پر ان بچوں نے اپنی ماں کو رولا کر رکھا ہوا ہے۔ ہمارے والدین کے زمانے کے ہم بچوں کو جگا کر دودھ پلانا پڑتا تھا، مائیں دن بھر کے کام بھی کر لیتی تھی، بچے ساری رات اپنے رونے کا راگ بھی نہیں سنانے تھے۔ بچے بھی زیادہ ہوتے تھے مگر والدہ کے لیے انکی پرورش مشکل نہیں ہوتی تھی۔ اس کی وجہ کیا ہے؟؟ ایک عالم دین نے بیان میں کہا پہلے زمانے میں عورت پریگننٹ ہوتی تھی
تو ساری پریگننسی اتنا اذکار پڑھتی تھی کہ ایک واقعے میں ایک بچہ پیدا ہوا تو اسکو سپارہ یاد تھا۔ پھر والدہ بچے کو فیڈ کرواتی تھی تو دوپٹہ لیکر مسلسل ورد کرتی رہتی تھی حیا اتنی تھی کہ کھلے آسمان تلے بھی فیڈ نہیں کرواتی تھی اس لیے بچے بھی صلاح الدین ایوبی، خالد بن ولید جیسے پیدا ہوتے تھے۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارے والدین نیک سیرت، شریف، دیندار ہوتے تھے اس لیے انکی اولادیں بھی اچھی پیدا ہوتی تھی۔ اب ہم بطور والدین بھی ٹھیک نہیں اس لیے آنے والی نسل میں ہمارے ہی برے جینز ہیں تو اس کے نتیجے میں اولاد نے بھی ناک میں دم کیا ہوا ہے۔ اب خواتین اذکار کرنا تو دور کی بات دوپٹہ بھی نہیں لیتی، بہت کم جوان لڑکیاں ہونگی جو گھروں میں سر پر دوپٹے رکھتی ہونگی, کام کرتے ہوئے
اذکار پڑھنے میں انکی زبان مصروف ہوگی،اب بے حیائی اتنی عام ہو چکی ہے کپڑے نازیبا پہنے ہوتے ہیں کہ جب آپ کار میں بیٹھ کر کہیں جا رہے ہوں تو موٹر بائیک پر خواتین ایسے کپڑے پہن کر جا رہی ہوتی ہیں جن سے باقی خواتین کے سر بھی شرم سے جھک جاتے ہیں۔ ناچ گانا اب فیشن بن چکا ہے،
شوہروں کی نافرمانی، بدزبانی عام ہے۔ بلکہ چالاک لڑکیوں نے شوہروں پر جادو کروا کر انکو ایسا غلام بنایا ہوا ہے کہ انکا بس نہیں چلتا بیویوں کے پاؤں دھو دھو کے پئیں (یہ مزاق نہیں سچ ہے بہت کیس میں جانتا ہوں خود)۔ شادی سے پہلے لڑکوں سے رشتے کے وقت سے پہلے سے ہی باتیں سٹارٹ کر دیتی ہیں نکاح سے پہلے ہی دونوں میں بہت سا وقت رات دن فون پر ساتھ گزرتا ہے۔ مطلب اب یہ اخلاقیات رہی ہی نہیں کے نکاح ہو تو بات کی جائے پہلے نہیں۔
مرد حضرات شادی سے پہلے ہی گرل فرینڈز بنا کر پتا نہیں کتنی بار شادی کر چکے ہیں (مطلب زنا), شادی سے پہلے محبتوں میں بریک اپ کروا چکے ہوتے ہیں۔ (معذرت کے ساتھ)پورنوگرافی تو شاید ہی کوئی نہ کرتا ہو۔ نماز بہت ہی کم لڑکے پڑھتے ہیں، باکردار بہت کم لوگ ہونگے
جو کسی لڑکی سے بات نہ کرتے ہوں۔ جھوٹ بولنا عام بات ہے۔ دھوکہ دے کر چھوڑ جانا بھی بہت عام ہے۔ چھوٹی عمر کے لڑکے سگریٹ نوشی کر رہے ہوتے ہیں
اور جن کے پاس پیسہ ہو انکے لیے شراب نوشی بھی عام ہے۔ شیشہ تو اب لوگ سرعام بھی پی کر فیسبک پر اپنی ڈی پی لگا رہے ہوتے ہیں۔ اللّٰہ کا خوف، مرنے کا خوف، اللّٰہ کو جواب دینے کا خوف تو رہا ہی نہیں۔ سوچیے جن کے والدین ایسے ہونگے انکی اولاد کبھی فرمانبردار ہو سکتی ہے؟؟ انکی اولاد کبھی نیک سیرت ہو سکتی ہے؟؟ انکی اولاد کبھی باکردار ہو سکتی ہے؟؟؟ انکی اولاد کبھی شریف ہو سکتی ہے؟؟؟
اب اگر کوئی کہے کہ حضرت نوح کا بیٹا نافرمان نکلا، تو انبیاء کے ساتھ جو بھی کچھ بھی ہوتا تھا وہ اللّٰہ کی ان پر آزمائش ہوتی تھی اور اس میں ہمارے لیے سبق موجود ہوتا تھا۔ اب جو وقت چل رہا ہے مرد و خواتین سوشل ایپ پر ڈانس کر رہے ہیں اپنی بیہودہ ایکٹنگ کر رہے ہیں۔
میں ایسا کچھ نہیں دیکھتا مجھے اتنا علم نہیں مگر ایک لمحہ فکریہ ہے ان کی اولاد اب کس ٹائپ کی ہونگی؟؟؟ اگر آپ چاہتے ہیں آپ کی اولاد نیک صالح ہو، آپکی فرمانبردار، شریف، برائیوں سے پاک آپکی آنکھوں کی ٹھنڈک ہو۔ معاشرے میں آپکا نام روشن کرے تو آج ہی سچے دل سے توبہ کرکے اپنے سب برے اعمال چھوڑ کر صراط مستقیم پر چل پڑیں
۔ جو غلط باتیں، عادتیں اپنی اولاد میں دیکھنا نہیں چاہتے ان سے خود بھی دور رہیں۔ آج آپ اپنے نفس پر کنٹرول کریں گے تو کل کو اس کی وجہ سے آپکا نیک خون، نیک جینز آپکی اولاد میں ٹرانسفر ہونگے تو انشاء اللہ جب آپ اس کی نیک تربیت کریں گے تو انشاء اللہ وہ نیک فطرت کے ہی رہیں گے۔
آپ آم کا پودا لگائیں گے تو اس پر آم ہی آئیں گے ایسا نہیں پودا آم کا ہو اور بینگن اگ آئیں۔ لیکن اگر کریلے اگا کر سوچیں کہ اس پر مالٹے اگیں تو ایسا ممکن نہیں۔