آصف خورشید سر صوبہ شاہ
23مارچ 1940پاکستان کی تاریخ کا وہ روشن دن جس دن مسلمانوں نے اپنی آزادی کے لیے منزل کا تعین کیا۔ ایک الگ وطن کا مطالبہ پیش کیا ۔ اس دن کے تاریخی اجلاس میں مولوی فضل الحق نے مشہو ر قرار داد پیش کی اور اسی دن قرار داد لاہور منظور کی گئی ۔جو آگے چل کر قرار داد پاکستان بنی ۔اس دن بر صغیر کے مسلمانوں نے اپنے لیے مکمل آزادی کا اعلان کیا۔اور یہ فیصلہ کر لیا کہ اب ایوان فرنگی مسمار یا تختہ دار۔ برصغیر پاک و ہند پہ مسلم حکومت کا سورج تقریباَایک ہزار برس تک اپنی پوری آب و تاب سے چمکتا رہا۔لیکن جب مکار فرنگیوں کی چالاکی اور اپنوں نے بد عہدی نے حکومت کی تو پھر اس صبح پر نور کو غلامی کی شب تاریک میں بدل دیا ۔ تو مسلمانوں کی آزاد فطرت نے اسے قبول نہ کیا۔ہندوؤں کے لیے تو یہ مرحلہ پہلے کئی بار آچکا تھاکیونکہ وہ تو صدیوں سے غلام ہی چلے آرہے تھے کبھی ان پر آرائیوں نے حکومت کی ۔ کبھی تیمور نے انہیں غلامی کا طوق پہنایا۔کبھی محمود غزنوی کے گھوڑوں کی ٹاپوں نے ان کے بتوں کو پاش پاش کیا ۔ ہندو اب اس غلامی کے عادی ہو چکے تھے ۔لیکن مسلمانوں پر یہ مر حلہ دارو صلیب پہلی بار آیا تھا۔لیکن اس کے باوجود مذہب نے آزادی کی جو کرن ان کی سر شست میں ڈالی اس نے مسلمانوں کو کسی صورت غلامی کو قبول نہ کرنے دیا ۔آزادی کی یہ تمنا کبھی حسرت موہانی کی آواز بنی ،کبھی محمد علی جوہر کی تقریر بنی ۔ کبھی علامہ اقبال ؒ کی تحریر بنی اور پھر اخر کار پاکستان کی صورت میں ان تمام خوابوں کی تعبیر بنی ۔ 23مارچ 1940کی وہ سہانی صبح ،اور لوگوں کا ایک جم غفیر تھا،ایک جوش اور ایک جنوں تھا۔ساتھ کھڑے لوگوں سے کوئی خونی رشتہ نہیں تھا ۔اس دن نہ کوئی سندھی تھا نہ بلوچی نہ پنجابی نہ بنگالی ، سب ایک احساس کی مالا میں پروئے ہوئے لوگ تھے ۔ سب کا آپس میں ایک ہی رشتہ تھا ۔لاالہ الا اللہ ۔جس کھٹن سفر کا آغاز 23مارچ کو منٹو پارک سے شروع کیا گیا ۔ تھوڑے ہی عرصے میں عظیم قائد کی رہبری میں 14اگست 1947کو اپنی منزل مقصود پر جا پہنچا ۔آج ہم آزاد ہیں ۔ غلامی کی شب تاریک ختم ہو چکی ہے ۔ہمارے شہیدوں نے اپنے خون سے آزدی کا وہ سورج طلوع کیا جو آج 70سال بعد بھی اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ چمک رہا ہے اور دشمن کو یہ بتا رہا ہے کہ ہمارا دفاع ناقابل تسخیر ہو چکا ہے ۔ اگر دشمن تم نے میلی آنکھوں سے دیکھاتو تمہارے ہر جاسوس کو کلبھوشن اور تمہارے ہر پائلٹ کو ابھی نندن بناد یں گے ۔ اگر تم نے مزائل حملے کا سوچا تو یاد رکھنا ۔ راجستھان سے آسام تک نہ گھاس اگے گی نہ تمہارے مندروں میں گھنٹیاں بجیں گی ۔
خون دل دے کے نکھاریں گے رخ برگ گلاب
ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے
109