جیسے امانت کا مالک کوئی اور ہوتا ہے جو اُس وقت تک کسی اور کے زیرِ حفاظت رہتی ہے جب تک اُس کا حقیقی مالک اُسے واپس نہیں لے لیتا۔ بالکل اِسی طرح زندگی بھی موت کی امانت ہے۔ جسے جب مالکِ حقیقی واپس لینا چاہے لے لیتا ہے اور اِس کی واپسی میں کوئی انکار یا تاخیری حربہ بھی ممکن نہیں۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے کہ ہر زی روح نے موت کا مزہ چکھنا ہے۔ اِس پر عمل درآمد ہماری آنکھوں کے سامنے شب و روز ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ ہمارے کتنے عزیز و اقارب اور حلقہء احباب میں سے کتنے افراد اِس دارِ فانی سے کُوچ کرگئے ان کا شمار کرنا بھی ممکن نہیں۔ وہ یہاں مہمان کی طرح آئے اور تھوڑے سے قیام کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جُدا ہوگئے۔ اُنکا قیام اور وجود اب ایک خواب اور خیال کی طرح محسوس ہوتا ہے۔ ہم سب نے بھی اِس عمل سے گزرنا ہے۔ مگر اپنی اپنی باری اور طے شدہ شیڈول کے مطابق۔ ہم ان تمام حقائق سے بخوبی اگاہ ہیں بلکہ بحیثیت مُسلم موت کا تصور ہماری بنیادی تعلیمات اور عقائد میں شامل ہے۔ مگر اِس کے باوجود اپنے کسی عزیز کی موت کے صدمے کو اتنا جلدی نہیں بھلا سکتے۔ اُس ذاتِ یکتا و کریم کا انسانی باہمی رشتوں میں اتنی زیادہ محبت اور چاہت کا عنصر شامل کرنا دراصل انسان کو امتحان اور آزمائش میں ڈالنا مقصود ہے۔اور اس میں کامیابی اُسی کی ہوتی ہے جو اِس کی تیاری کرتا ہے۔ لہذا جب بھی قدرت ہمیں کسی آزمائش میں ڈالتی ہے تو نامکمل تیاری کی وجہ سے ہمارے قدم ڈگمگا جاتے ہیں۔ بالخصوص کسی حادثاتی موت کی صورت میں چوں کہ یہ اچانک واقع ہوتی ہے جس کے لئے انسان ذہنی طور ہر تیار نہیں ہوتا۔ کچھ ایسی ہی صورتِ حال کاسامنا کیپٹن محمد فاروق صاحب اور عزیزم جاوید اختر (نوتھیہ شریف) اور اُن کے اقربا کو ہے۔ فاروق صاحب کی جواں سال بیٹی صدف فاروق اور جاوید اختر کی اہلیہ جو PIA میں بطور فضائی میزبان فرائض انجام دے رہی تھی ۔07 دسمبر 2016 کو ہوائی جہاز کے حادثے میں شہید ہوگئی۔ اُس کی اچانک موت سے سب لواحقین شدید غم میں مبتلا ہیں۔ صدف کو جُدا ہوئے ایک ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔مگر آج بھی اُس کی دردناک موت کے غم کی شدت میں کمی نہیں آرہی۔ اُس کے گلشن کے دو پھول اُس کی واپسی کے اب بھی منتظر ہیں۔ محمدمعد جاوید آج بھی اپنی ماما کی واپسی کے بارے میں پوچھتا ہے۔ مگر اُسے یہ کہہ کر بہلا دیا جاتا ہے کہ اُس کی ماما ڈیوٹی پر گئی ہوئی ہے۔ اُسے کیا خبر کہ اُس کی ماما وہاں ڈیوٹی پر گئی ہیں جہاں سے آج تک کوئی واپس نہیں آیا۔ وہ جب بھی ڈیوٹی پر روانہ ہوتی تو اپنے بچوں کے پیروں کو بھی چومتی۔ صدف کی امّی اُس سے پوچھتی صدف کیا تمہیں اپنے بچے اتنے زیادہ اچھے لگتے ہیں تو وہ جواباً کہتی ہاں امّی یہ مجھے واقعی بہت اچھے لگتے ہیں۔ یہ حقیقت اب سب پر عیاں ہوئی۔ اُس کے پاس وقت کم تھا اور وہ اس قلیل سے وقت میں بچوں سے پیار کی انتہا کو پہنچنا چاہتی تھی۔ بچوں سے اِس قدر پیار کرنے والی صدف آج انہیں اس ظالم سماج کے رحم و کرم پر چھوڑ کر خود ابدی نیند سوگئی۔ اب ان کے پیروں کو بوسے دینے والا کوئی نہیں۔ اس کے آنگن کے مرجھائے ہوئے ان دو پھولوں کی کھوئی ہوئی رعنائی، مہک اور خوشبو کون لوٹائے گا۔ جب ڈیڈ باڈی گاؤں لائی گئی تو تمام عزیز و اقارب اس کے ارد گرد کھڑے زار و قطار رو رہے تھے۔ ننھامُعد اِس بکس کے پہلو میں بیٹھا پوچھتا رہا کہ اس میں کیا ہے اور آپ سب کیوں رو رہے ہیں۔ اُسے کیا معلوم کہ اِ س میں ہی تمہارا سب کچھ تھا جو تم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھن چکا ہے۔ جو تمہیں کبھی ایک دھندلے سے خواب کی طرح محسوس ہوگا۔ ڈیڑھ سال کا ہاشم اپنی ماما کے بچھڑنے کا اظہار تو نہیں کرسکتا البتہ محسوس ضرور کرتا ہے۔ وہ ہر ایک کے سینے سے لپٹ کر اپنے غم کا اظہار کرتا ہے۔ اپریل 2012 کو صدف گاڑی میں سوار، پھولوں سے سجی سیج والے گھر میں اپنے جیون ساتھی جاوید اختر سے عمر بھر ساتھ نبھانے کے عہد و پیماں کے ساتھ ’’صدف جاوید‘‘ کے روپ میں داخل ہوئی۔ ہر سُو خوشیاں اور شادمانی۔ ہر چہرہ نکھرا نکھرا۔ اُس پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتا اُسکا استقبال کررہا تھا۔ مگر اِس کے 4 سال اور 8 ماہ بعد وہی صدف اسی گھر میں کسی اور رُوپ میں داخل ہورہی تھی۔ اب کی بار وہ گاڑی کی بجائے دوسروں کے کندھوں پر سوار اور خود کو ایک بکس کے اندر چھپائے ہوئے۔ اُسکا یہ اندازِ آمد سب کو غم زدہ اور اشک بار کرگیا۔ ہر سُو مایوسی، پریشانی، ہر آنکھ پُرنم، آہوں اور سسکیوں اور آہ و پکار سے اُسکا استقبال ہورہا تھا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ یہی قدرت کو منظور تھا۔ اسکے ہر فیصلے کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کے علاوہ انسان کے بس میں کچھ نہیں۔ اُس نے اپنی جان کی جتنی بڑی قربانی دی اللہ تعالیٰ اُسے اتنا ہی بلند درجہ عطا فرمائے گا۔ صدف بے پناہ صفات اور خوبیوں کی حامل، دھیمی آواز میں گفتار کی عادی، اور حسن اخلاق میں اپنی مثال آپ تھی۔ اتنی مختصر سی زندگی میں تیزی سے کامیابیاں سمیٹنے والی صدف آج ہم میں نہیں۔ یہی وہ تمام اسباب ہیں جو اُس کی جدائی کے غم کی شدت کم نہیں ہونے دیتے۔ اُس ذاتِ وحدہ لا شریک سے التجا ہے کہ وہ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے۔ اور لواحقین کو صدمہ سہنے کی استقامت عطا فرمائے۔ آمین۔{jcomments on}
138