جب قانون اندھا ہونے کے ساتھ ساتھ بہرہ بھی ہوجائے اور جہاں طاقت ور کمزورں پر ظلم ڈھائیں جہاں مظلوم کی داد رسی نہ ہو وہاں بے حسی راج کرتی ہے۔ہمارے سماج میں اس وقت بے حسی کا راج ہے کیونکہ ہر جانب قانون کی تماشہ گری جاری ہے جب معاشروں میں ناانصافی جڑ پکڑ لے تو دلوں میں بے سکونی رائج ہوجاتی ہے۔ ایسے میں انسان خود کو بے بس اور لاچار تصور کرتا ہے۔
شاید ہمارا وطن دنیا میں قانون سے کھلواڑ کی درجہ بندی میں اول نمبر رکھتا ہے۔ جہاں قانون کو ان ہی لوگوں نے پاوں کی جوتی بنا رکھا ہے جو قانون پر عمل کروانے کی غرض سے بھاری تنخواہوں اور مراعات کے عوض رکھے جاتے ہیں۔تمام سرکاری محکموں کے ملازمیں چھوٹے ہوں خواہ بڑے خود کو تقویت کردہ اختیار کا ناجائز استعمال اپنا حق تصور کرتے ہیں۔کسی بھی محکمے میں جائز،کام کے لیے بھاری رشوت پاس نہ ہو تو کرسی پر بیٹھا ہمارا ملازم ہمیں بے شمار قانونی پیچیدگیوں سے آگاہ کرتے ہوئے دفتر کے چکر لگانے پر قادر ہے۔فریاد کہیں سنی نہیں جاتی سب زیادہ کرپٹ محکمہ پولیس ہے جہاں نہ قاتل بخشا جاتا ہے نہ مقتول کے عزیز واقارب بچ جاتے ہیں۔
سب کو نذرانے دینا لازم ہے اس محکمے میں شاید رحمدل افراد خال خال ہی ہوں گے اکثریت کے دل حرام کھا کھا کر سیاہ ہوچکے ہیں ان پر نہ کسی کے آنسو اثر انداز ہوتے ہیں اور نہ کسی کی گریہ زاری۔یہ محکمہ سفاکیت میں اپنی مثال آپ ہے۔ بطور صحافی اس محکمے کو میں بہت قریب سے دیکھتا ہوں ان کے دل میں کسی کے لیے رحم نہیں ہوتا۔یہ پتھر دل ہیں ان کو نہ کسی ماں کی بددعا لگتی ہے نہ کسی باپ کی آہیں ان پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ان کی سفاکی کا ایک واقعہ گزشتہ دنوں سامنے آیا جب بیول کے ایک غیر مقامی شخص ظفر اقبال ولد محمد انور اپنی بن ماں کی تیرا سالہ بیٹی صائقہ کو بہلا پھسلا کر بھگا لے جانے والے خاندان کے خلاف پولیس چوکی قاضیاں پہنچا۔ظفر اقبال کے مطابق اس کی بیٹی کو پڑوسی محمد اسلم اس کی بیوی خدیجہ نے بہلا بھہکا کر اپنے بیٹے آصف کے ہمراہ بھاگنے پر راضی کیا۔
حیران کن طور پر قاضیاں پولیس نے آیف آئی آر درج کرتے وقت باپ کی جانب سے بچی کی بتائی عمر تیرا سال کو اٹھارہ سال لکھا۔شاید بچی کو بالغ دیکھا کر کیس سے جان چھڑانا مقصود تھا۔کیونکہ فریاد کرنے والا ظفر اقبال ایک غریب آدمی ہے جس کے پاس ان کے پیٹ بھرنے کا ایندھن موجود نہیں تھا۔سادہ سا کیس تھا کہ ایک نوجوان اور اس کے والدین نے ایک نابالغ بچی کو ورغلا کر گھر سے بھگایا اندارج مقدمہ کے بعد بھی نامزد دو ملزمان اسلم اور اس کی بیوی خدیجہ تین روز بیول اپنے گھر پر موجود رہے۔جو بعدازاں خود بھی غائب ہوگئے۔اگر پولیس بروقت کاروائی کرتی اور نامزد ملزمان کو تفتیش کے لیے حراست میں لیا ہوتا تو بچی کی برآمدگی مسئلہ نہ تھا۔لیکن جب تک پولیس کو پیسے کی امید نہ ہو ان کے پاوں چلنے کے قابل نہیں ہوتے ملزماں اور مدعی دونوں غیرمقامی ہیں اور دونوں کا تعلق وسطی پنجاب کے علاقے پاکپتن سے ہے۔یقیناً ملزمان پاکپتن ہی جاسکتے ہیں
لیکن اب مدعی کے پاس پیسے نہیں کہ پولیس کو گاڑی اور زاد راہ کے لیے بھاری رقم ادا کرسکے اور پولیس انتی فرشتہ صفت نہیں کہ بغیر مایا وصولی نیکیاں کرتی پھرے۔یہاں پل کی خبر نہیں ہوتی اور اپنے انجام سے بے خبر ظالم کو ظلم سے فرصت نہیں یاد رکھیں کہ مظلوم کی تو خیر ہے لیکن ظالم کی کبھی خیر نہیں ہوتی جب انسان مایوس ہوجاتا ہے تو خدا کی رحمت جوش مارتی ہے اور پھر ظالم کی دراز،رسی کھینچ لی جاتی ہے۔نہ جانے پیسے کی کیسی ہوس ہے کہ جس کے پیچھے انسان پستیوں میں گر کربھی شرمندگی محسوس نہیں کرتا۔رب کائنات نے خالق اور مخلوق کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ خوبصورت رشتہ والدین اور اولاد کے درمیان تخلیق کیا ہے سب قابل بھروسہ اور قابل اعتبار۔یہ رشتے دور موجودہ میں نہ قابل احترام رہے ہیں اور نہ قابل بھروسہ اور اس میں بڑھواتی انہیں کرپٹ محکموں کی وجہ سے ہے۔
جو ایسے واقعات پر گرفت نہیں کرتے۔اگر پولیس قانون کرایہ داری ایکٹ پر عمل کررہی ہوتی تو اس خاندان کا مکمل ڈیٹا تھانے میں موجود ہوتا۔گوجرخان۔بیول اور گردو نواح میں سیکڑوں غیر مقامی لوگ نہ صرف رہائش پذیر ہیں بلکہ یہاں کاروبار بھی کررہے ہیں وہ کون ہیں کہاں سے تعلق رکھتے ہیں ان کے پاس آنے مہمان کون لوگ ہوتے ہیں ان کا کیا کریکٹر ہوتا کچھ پتہ نہیں۔مفت کی تنخواہیں ہڑپنے اور اوپر کی کمائی پر آنکھیں رکھنے والے اس محکمے سے بہتری کی امید رکھنا عبث ہے یہ وہ خواب ہے جس کی تعبیر رو محشر تک نہیں مل سکتی
یہ دستور زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زبان میری
طالب حسین