97

غیر ملکی قرض اور شاہانہ اخراجات

موجودہ حکومت سے ہر گز توقع نہ تھی کہ آئی ایم ایف سے قرضہ منظور ہوتے ہی وہ بے دریغ اپنے اخراجات میں اس قدر اضافہ کردے گی۔ حکومت صبح شام عوام سے ہمدردی اورانہیں ریلیف بہم پیمانے کے دعوے تو کرتی ہے لیکن عملاً اس نے انہیں کوئی ایسا بڑا ریلیف نہیں پہنچایا ہے جیسا اس نے اپنے وزراء اور الکان پارلیمنٹ کو صرف ایک جھٹکے میں پہنچادیا ہے۔ ہماری حکومت عوام کو یہ تسلیاں دیتی ہے کہ حکومتی اخراجات کم کئے جائیں گے مگر ہم نے اخراجات بے

دریغ بڑھتے ہوئے ہی دیکھے ہیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے میسحاعوام سے تو ہر وقت قربانی دینے کی درخواستیں کرتے ہیں لیکن خود کسی بھی قسم کی قربانی دینے کو تیار نہیں ہیں اور سارے کے سارے عوامی غم خوار اللہ کے فضل و کرم سے امیر طبقہ سے تعلق رکھنے والے ہی ہیں ان میں بہت بڑے بڑے کردار اور سرمایہ دار لوگ ہیں اُن کی زمینوں کا ہی تعین کیا جائے تو تقریبا آدھا پاکستان انہی لوگوں کی ملکیت ہے۔

ملک میں جب بھی کوئی بحران آتا ہے تو یہ سب ترک وطن کر کے دیار غیر میں جا بستے ہیں اور جن لو گوں سے یہ ووٹ لے کر پارلیمنٹ کے منتخب ارکان بنتے ہیں انہیں بُرے وقت میں تنہا چھوڑ جاتے ہیں۔ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے دن سے لیکر آج تک اس ملک میں جب بھی کوئی بحران آیا ہے قربانیاں صرف غریب عوام نے ہی دی ہیں۔ مالی مشکلات پیدا کرنے کے اصل ذمہ دار یں لوگ ہیں جبکہ قربانیاں عوام سے مانگی جاتی ہیں۔ٹیکسوں کی بھر مار اور اشیائے خور دونوش کی گرانی عوام کو ہی برداشت کرنی پڑتی ہے آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کا سارابوجھ عوام پر ڈالا جا تا ہے

اور عالمی مالیاتی ادارے جب کوئی قرضہ منظور کر تے ہیں تو شاہانہ اخراجات انہی خیر خواہوں کے بڑھ جا تے ہیں۔ ہمارے سمجھ میں نہیں آرہا کہ ارکان پارلیمنٹ اور حکومتی اہلکاروں کی تنخواہوں میں یکمشت اتنا بڑا اضافہ کرنے کی ایسی کیا بڑی ضرورت آن پڑی تھی کہ ایک ہی چھلانگ میں نو سو فیصد تک تنخواہ دی گئی ہیں جبکہ ان بھاری تنخواہوں کے علاوہ دیگر اور مراعات بھی دی جارہی ہیں ان کے گھر کے اخراجات بھی حکومت کے خزانوں سے ہی پورے کئے جا تے ہیں آئی ایم ایف نے بھی صرف ایک ملین ڈالر ہی دئیے ہیں اور ہمارے مسیحاوں نے فورا ہی اس میں سے اپنا حصہ سمیٹ لیا ہے

اس وقت ملک بدترین معاشی بحران کا شکار ہے ریاست کا نظام اور حکومتی ادارے قرض پر گزرے کر رہے ہیں۔ سرکاری ملازمین کو تنخواہیں بھی قرض لے کر دی جا رہی ہیں ایسے میں ارکان اسمبلی وزراء سپیکر ڈپٹی سپیکر کی تنخواہوں میں اس قدر حیر ت ناک اضافہ بھوک بنگ افلاس کا شکار عوام سے ایک گھناؤ نا مذاق ہے۔ اس بل کی منظوری کے بعد اراکین اسمبلی کی تنخواہ بڑھا کر چار لاکھ کر دی گئی ہے جبکہ صوبائی وزراء کی تنخواہ ایک لاکھ روپے سے بڑھا کر 9لاکھ 60ہزار روپے سپیکر پنجاب اسمبلی کی تنخواہ ایک لاکھ 25ہزار روپے سے بڑھا کر 9لاکھ پچاس ہزار روپے اور ڈپٹی سپیکر کی ایک لاکھ 20ہزار روپے سے بڑھ کر 7لاکھ 75ہزار روپے کر دی گئی ہے

پارلیمانی سیکر ٹریز کی تنخواہ 83ہزار سے بڑھ کر 4لاکھ 51ہزار وپے اور سپیشل اسسٹنٹ اور ایڈوائزر کی تنخوا ہیں ایک لاکھ روپے سے بڑھا کر 6لاکھ 65ہزار وپے کر دی گئی ہیں جبکہ دوسری جانب حقیقت یہ ہے کہ پنجاب میں کم سے کم تنخواہ حکومت نے 37ہزار روپے مقر کر رکھی ہے مگر اس پر عملدر آمد کرانے میں پنجاب حکومت بری طرح ناکام ہے اور سرمایہ دار بندہ سے بیس ہزار روپے دے کر عام مزدور سے دس سے بارہ گھنٹے کام لے رہا ہے ارکان اسمبلی
کی تنخوا ہوں کو یکدم بہت زیادہ بڑھا دینا معنی خیز ہے آئی ایم ایف پروگرام کے باوجود پاکستان کے لئے قرضے واپس کرنا مشکل ہو چکا ہے ارکان اسمبلی اور وزراء کی تنخواہوں میں اضافہ کا اثر براہ راست عوام پر پڑے گا حقیقی جمہوری معاشروں میں ریاست کو ماں کا درجہ دیا جاتا ہے

خود بھوکے رہ کر اولاد کے شکم کو رزق کے ایندھن کی فراہمی فرض سمجھ کر ممتا کے جذبے سے کی جا تی ہے۔ ریاستی حکام راتوں کو جاگ کر عوام کی حفاظت کا فریضہ سر انجام ریتے ہیں اور بحرانی کیفیت میں سارا دن اسی سوچ اور فکر میں مبتلاکر دیتے ہیں کہ عام شہری کو کیسے ریلیف دیا جائے اُن کی اپنی ہستی ریاست اور شہریوں کے مفادات کے سامنے بے حیثیت ہو جا تی ہے مگر ہمارے ہاں گنگا ہر معاملے میں اُلٹی بہہ رہی ہے کہنے کو تو یہ اسلامی ریاست ہے مگر یہاں کے عوام و خواص نے اسلام اور اسلامی تعلیمات سے خو د کو ازخود اختیار کے تحت صبر اکر لیا ہے۔ ذاتی اغراض و مقاصد کے لئے اسلامی احکامات کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال کر مفاد حاصل کیا جاتاہے۔ نام کی حد تک جمہوری ریاست میں جمہور کی حیثیت ایک ایسے عنصر کی ہے جو ووٹ کی پرچی سے جن ارکان اسمبلی کو اپنی نمائندگی کے لئے ایوان میں بھیجتے ہیں

وہ منتخب ہونے کے بعد خواص یعنی اشرافیہ کے مفادات کے نگران بن جاتے ہیں۔ دور جانے کی ضرورت نہیں حالیہ دواڑھائی سالوں میں بے تحاشاقانون سازی ہوئی مگر کوئی ایک ترمیم ایسی نہیں لائی گئی جو عوام الناس کے مسائل و مشکلات کو کم کرتی ہو۔ عوام کو ریلیف دیتی ہو ہر آئینی ترمیم اور قوانین میں تبدیلی صرف حکمرانوں اوراشرافیہ کے مفاد میں کی گئی خدا را عقل کے ناخن لیں اور صحیح معنوں میں عوام کو ریلیف بہم پہنچانے کی کوشش کر یں غیر ملکی قرضوں سے انہیں نجات دیں اور انہیں سکھ کا سانس لینے دیں ابھی معیشت پوری طرح بحال نہیں ہوئی ہے اور قرض کو مال مفت سمجھ کر اپنے ہی لوگوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے

اسے اس بے رحمی کے ساتھ خرچ کیا جا رہا ہے جیسے پھر کبھی موقع نہیں ملے گا کسی بھی رکن پارلیمنٹ کا سویا ہوا ضمیر ان شاہانہ اخراجات پر نہیں جا گا آئی ایم ایف جو ہر حکومتی اقدام پر کڑی نظر رکھتی ہے وہ بھی نہ جانے کیوں اس غیر ضروری فراخدلی پر خاموش ہے۔ وہ دراصل چاہتی بھی یہی ہے کہ یہ ملک اور اس کے عوام اسی طرح قرض لینے کے لئے ہمیشہ اس کے محتاج بنے رہیں اور وہ چند ملین قرض دینے کے بہانے ان پر قسم قسم کی پابندیاں لگاتی ہے وہ ہر گز نہیں چاہتی کہ ہم اس کے چنگل سے آزاد ہو کر خود مختار اور خو د کفیل ہو پائیں اس کی دہشت پالی گرفت ہمیں کبھی بھی اپنے شکنجہ سے نکلنے نہیں دیتی۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے حکمرانوں اور اشرافیہ کو احساس کرنا چاہیے کہ ہم کیو نکر اتنے شاہانہ اخراجات کے متحمل ہو سکتے ہیں؟

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں