ہمارے ایک بہت بڑے طبقے کا بڑا مسلہ فکر نمو سے عدم دلچسپی اور اندھی تقلید ہے۔ جو کانوں نے سنا اسی کو دل نے بغیر کسی حجت بالغہ کے تسلیم کیا۔ ہماری تمام تر فکریں دریائے رواں کی طرح ہونی چاہیئں نہ کہ اتنی خوبصورت نعمت (دماغ) کو اسیران قفل کی مانند دنیا و مافیہا سے بالکل لاتعلق رکھا جائے۔ ہم تقلید کے اتنے بڑے مضبوط قائل ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی فکری و تحقیقی مطالعہ کے پیچھے ہم ضرور کسی نہ کسی شخصیت کو نکال لائیں گے۔ اس کی بڑی وجہ ایمان کی کمزوری ہے ہم تو خدا کو بھی صرف اس لیے مانتے ہیں
کہ اگر بالفرض وہ آخرت میں نکل آیا تو کم سے کم بچ جائیں گے۔ اور نہ نکلا تو بھی گھاٹے میں نہیں رہیں گے۔ ہماری فکر خدا تک بھی مکمل رسائی نہیں حاصل کر سکی یہ صرف دنیاوی مفاد اور زندگی کی الجھنوں سے کس طرح راہ فرار اختیار کیا جائے آسانیاں ڈھونڈنے میں مکمل وقت صرف کر دیتی ہے۔ ہماری تمام تر فکر چوہدری بشیر کی بیٹی تک کیسے پھول پہنچانا ہے حربے سکھاتی ہے۔ کام چوری کرنے کے گر سکھاتی ہے۔ ہم نے ہمیشہ کی طرح دوسرے کی بنی لائن کے پیچھے گھنٹوں کھڑے رہنا ہے۔ ہمیں ہمیشہ کی طرح کسی دوسرے شخص کی طرح بننا ہے
۔ جہاں ہم بہت ساری کام چوریاں کرتے ہیں وہیں پر جو سب سے بڑی ڈکیتی مارتے ہیں وہ دوسروں کی ذہنی صلاحیت اور فکری عمل کی ہے۔ ادبی دنیا کے سرسبز باغ سے خوبصورت خیال تک چوری کیئے جاتے ہیں۔ اس بڑی ڈکیتی پر کوئی عدالت نہیں بیٹھتی کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوتی بلکہ ہم پے در پے دوسروں کی فکر اور نظریات کی بڑے ہی احسن طریقے سے چوری کر رہے ہیں۔ اور پھر اسی نظریے اور فکر پر اپنی زندگی کا دارومدار سمجھتے ہیں اور اپنی ذہنی صلاحیتوں کو اپنی فکری اور سماجی تبدیلیوں میں ذرہ برابر کوشش نہیں کرتے کہ ہم سے بھی کچھ نیا ہوجائے۔ کچھ نئی تبدیلی ہو کچھ ترقی ہو ہم نے تو اپنے ذہن اور دل کو اپنے اجداد کی قیمتی اشیاء کی طرح کسی پرانے لکڑی کے صندوق میں محفوظ رکھا ہوا جیسے یہ ان بزرگوں کی امانت ہے
ہمارے پاس۔ اگر کچھ پل بیٹھ کر صرف اس بات پر غور کریں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اس کائنات میں ان گنت مخلوقات میں صرف ہمیں (انسان) کو ہی کیوں اشرف بنایا صرف ہمیں ہی عزت کا تاج پہنایا صرف ہمیں ہی اس نے وقار بخشا اور بڑی بات عقل سلیم بخشی کہ تمام تر مخلوقات کو ہمارے ہی کنٹرول میں کر دیا۔ ہمیں پہلے کوئی بھی بڑا قدم اٹھانے سے پہلے اس بات کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہم عزت یافتہ ہیں ہمیں سب پر برتری حاصل ہے۔ اس کائنات میں سب سے افضل ملائک کو سمجھا جاتا ہے ہمیں یہ بھی اعزاز حاصل ہے
کہ ہم مسجود ملائک ہیں ہم فرشتوں کی بزم سے بھی سرفراز و سر خرو ہو کر نکالے گے۔ ہماری ہر ترقی اپنی پہچان کے بعد حاصل ہے۔ ہمیں پہلے خود کو پہچاننا ہوگا ہم کیا ہیں؟ ہمیں اتنا کیوں نوازا گیا؟ ہم ہی اتنے اشرف کیوں ہیں؟ ان تمام تر سوالات کے جوابات کے بعد ہماری ترقی ہے۔ انہی سوالوں کے صحیح اور منطقی جواب ہماری عقول کو جلا بخشتے ہیں۔ انہی سوالوں کے جواب ہماری ذہنی صلاحیتوں کو اجاگر کرتے ہیں اور پھر جاکر ہم ایک بہتر معاشرے کی تشکیل کے ضامن بنتے ہیں۔ ہم جہاں خدا کی حمد و ثناء کرتے ہیں اس کے ذاتی و صفاتی ناموں کا ورد کرتے ہیں اسی کے ساتھ ہمیں ایک اور اضافی ورد کا بھی پابند ہونا چاہیئے اور وہ ورد کیا ہے کہ ” میں خزانہ ہوں ”یہ ورد آپ کی ترقی کے بند راستے کھولنے میں کارآمد ثابت ہوگا اور آپ کو ایک نئے سانچے میں ڈال کر خوبصورت نقش میں نکالے گا
اس ورد کی آپ جب تک گہرائی اور گیرائی میں نہیں جائیں گے تو معاف کرنا آپ اشرف نہیں ہیں آپ انسانی شکل و صورت میں ضرور پیدا کیئے گئے ہیں مگر آپ انسان نہیں ہیں۔ اپنی خودی سے آشنا نہیں ہیں ہم اس معاملے میں بہت بد نصیب ہیں ایک دوسرے کو سمجھ نہیں سکتے۔ ہماری آنکھ صرف ظاہری خلیے کا مشاہدہ کر سکتی ہے اس میں باطن کے بھید آشکار کرنے کی سکت نہیں اور نہ ہی آشکار کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ ہم سمندر صرف اوپر سے دیکھ کر اینجوائے کرتے ہیں کتنا سیدھا سا اور ہموار ہے مگر یہ اندر سے کتنا گہرا ہے یہ نہیں جانتے اور نہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب اگر ایک استاد سینکڑوں الجھنوں کی زد میں ہے پڑھنے والے سینکڑوں طالب علم استاد کی اعلی ظریفی اور بذلہ سنج مزاج اور طریقہ تعلیم سے یہی سمجھیں گے کہ یہ استاد صاحب بڑے خوش قسمت ہیں خوش رہتے ہیں ہنساتے ہیں، ان بیچاروں کو کیسے اندر کے بھیدوں کی خوفناک شکل دکھائی جائے؟ہمارے ساتھ اٹھنے والے اکثر اندر سے کب کے مر چکے ہوتے ہیں مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ہم میں اتنی بھی اہلیت نہ تھی
کہ وہ ہم سے اپنا دکھ ہی شیئر کر دیں اس سے بڑی ہماری کم ظرفی اور کیا ہوسکتی ہے؟ مجھے آج بھی چارلی چپلن کی وہ بات یاد ہے جو چارلی چپلن دنیا کو ہنسانے کے کام آیا وہ کہتا ہے میں اکثر جب کسی پریشانی میں مبتلا ہوتا ہوں تو بارش میں روتا ہوں تاکے کوئی مجھے روتے ہوئے دیکھ یا پہچان نہ لے ‘یہ دنیا اپنے اندر ہر رنگ کی مخلوق سمائے ہوئے ہے۔ میں نے ابھی بتایا کہ ہمارے بہت قریب لوگ مرے ہوئے ہوتے ہیں اور ہم انہیں خوش مزاج اور خوشگوار سمجھ کر اکثر نظرانداز کر دیتے ہیں۔ اور ہمارا یہی نظر انداز رویہ انہیں ایک اور موت سے ہمکنار کر دیتا ہے۔ ہم انسان ہی تب کہلائیں گے جب ہم بغیر کسی کے بتائے ایک دوسرے کے دکھ درد سمجھ سکیں
۔ایک دوسرے کا ضمیر پڑھ سکیں۔ میں سکول ٹیچر ہوں اور میں جو مقصد لیکر آگے چل رہا ہوں میرے لیے اسی میں کامیابی ہے کہ بچے مجھے ہمیشہ خوشگوار ہی سمجھیں وہ میرے خوبصورت ظاہر کی طرح ہی میرا باطن سمجھیں مجھے اسی میں خوشی ہے کیونکہ میں بچوں کو نصابی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا درس بھی سکھاتا ہوں اور سب سے بڑی بات وہ یہ ہے کہ ان کو بیدار کرنا سکھاتا ہوں۔ ان کو خواب دیکھنے کی ایک نئی تعلیم دیتا ہوں ان خوابوں کی تعبیر کس طرح سے کی جائے سکھاتا ہوں جھپٹنا پلٹنا سکھاتا ہوں اب اگر میں اپنے ہی چہرے پر مایوسی کے جال اوڑھے کلاس روم میں بیٹھا رہوں گا تو میرے لکچر میرے جسم کا ساتھ نہیں دے سکیں گے اور نہ ہی میرا جسم میرے لکچر کا ساتھ دے گا دونوں میں مخالفت رہے گی تضاد ہوگا۔ میں اس سنجیدہ معاملے پر ایک پاوں ایک طرف اور دوسرا پاوں دوسری طرف نہیں رکھ سکتا۔ حلانکہ بعض لوگوں کو بہت عادت ہوتی ہے
اپنا غم اپنا درد دوسروں پر ظاہر کرنے کی یا پھر اکثر حضرات اپنا کوئی غم بیان کرنے کی ایک نئی ٹکنیک استعمال کرتے ہیں وہ یہ کہ بیان کرنے کے بجائے بھری محفل میں ایک طرف تنہا خاموش اور اداس چہرہ لیے بیٹھ جائیں گے تاکہ کوئی ان کے پاس آکر خوشدل شاہ کا یہ شعر پڑھے کہ کچھ تو بولیے صاحب شور کا فسوں ٹوٹے آپ کی خاموشی میں گفتگو زیادہ ہے کسی کے منت تڑلے کرنے پر دو چار آنسو بہا کر اپنا غم بتایا جائے بھلا یہ سب کرنے کے بعد آپ کو کیا ملے گا؟ ضرور کچھ نہیں۔ یہ میرے نزدیک بہت بری عادت ہے۔
اپنے ساتھ جڑے لوگوں کو جو بہت پہلے سے دیمک ذدہ ہیں روشنی کی کرن بنیں اور ان کیلئے اور کچھ نہیں کر سکتے تو کم سے کم مضبوط حوصلہ بن جایئے ان کی الجھی ہوئی زندگی کو اگر آپ سنوار سکتے ہیں تو دیر مت کیجیئے اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے۔