20

شادی ایک روحانی اور جذباتی تعلق

سلطان صلاح الدین ایوبی نے جنگ کے دوران ایک یہودی کمانڈر کو گرفتار کیا اسے جب سزا دینے لگا تو اس یہودی کمانڈر نے کہا کہ آپ کے بعد ہم مسلمان عورتوں کو اس قابل ہی نہیں چھوڑیں گے

کہ وہ پھر سے سلطان صلاح الدین ایوبی جیسے مرد مجاہد پیدا کر سکیں۔ہائے امت مسلمہ کو کیا ہو گیا مسلمان عورت کس ڈگر پہ چل پڑی ہے

ایک وقت تھا کہ گھونگھٹ دلہن کے پورے چہرے پر ہوتا تھا کانپتے ہوئے ہاتھ، شرم و حیا کے پیکر دلہا نے رومال منہ پر رکھنا، شادی میں سادگی قران کے سایہ میں رخصت‘برکت ہی برکت اور پیدا ہونے والی اولاد بھی نیک صالح اور شرم و حیا کی پیکر، اور ہمیشہ امن و سکون رہنا۔

آج کل کی شادیوں میں جہاں بہت سی روایات اور رسومات بدل رہی ہیں، وہاں دلہن کا سب کے سامنے ڈانس کرکے اپنے دلہا کی طرف بڑھنا ایک نئی روایت کے طور پر ابھر رہا ہے۔

یہ عمل چند لوگوں کے لئے خوشی اور تفریح کا ذریعہ بن سکتا ہے، لیکن ایک اسلامی اور ثقافتی تناظر میں اس پر کئی تنقیدات کی جا سکتی ہیں۔

اسلامی تعلیمات کے مطابق، شادی کی تقریب میں عفت اور حیا کا دامن تھامے رکھنا نہایت ضروری ہے۔ دلہن کا سب کے سامنے ڈانس کرنا، خاص طور پر غیر محرم مردوں کے سامنے، اسلامی حیا کے اصولوں کے خلاف ہے۔

(شوبز انڈسٹری کی بہت سی خواتین اپنی شادی کے موقع پر ناچ ناچ کر بے حال ہو جاتی ہیں اور اکثر شہروں میں جدید ذہنیت کی عکاس خواتین بھی انکے ہم پلہ ہیں)قرآن مجید اور احادیث میں مرد اور عورت دونوں کو

اپنی شرم و حیا کا خیال رکھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ ہمارے معاشرتی اور ثقافتی ماحول میں بھی شادی کی تقریبات میں عفت و حیا کی بڑی اہمیت رہی ہے۔

دلہن کا ڈانس کرنا، یا دلہے کو بوسہ دینا ہمارے ثقافتی روایات سے بھی متصادم ہے۔ ایسی روایات جو خاندانوں میں برکت اور احترام کی علامت سمجھی جاتی ہیں،

انہیں برقرار رکھنا ضروری ہیشادی کے آغاز میں ہی ایسی حرکات جو زیادہ دکھاوے اور نمود و نمائش پر مبنی ہوں، ازدواجی زندگی میں غیر ضروری توقعات اور تنازعات کا باعث بن سکتی ہیں۔

شادی کو ایک مقدس بندھن کے طور پر دیکھنے کے بجائے اسے ایک تفریحی شو کے طور پر پیش کرنا ازدواجی تعلقات کے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔شادی ایک روحانی اور جذباتی تعلق ہے

جس میں دو افراد اپنے رب کے حکم کے مطابق ایک ساتھ زندگی گزارنے کا عہد کرتے ہیں۔ ایسے میں شادی کی تقریب میں روحانیت اور محبت کے جذبات کو فروغ دینے کے بجائے محض تفریحی اور مادی پہلوؤں پر زور دینا اس مقدس بندھن کی روح کو کمزور کر سکتا ہے

اگرچہ جدید دور میں بہت سی نئی روایات اور رسومات کا اضافہ ہوا ہے، لیکن ہمیں اپنی اسلامی اور ثقافتی روایات کا دامن تھامے رکھنا چاہیے۔ شادی کی تقریبات میں عفت، حیا اور احترام کو برقرار رکھتے ہوئے خوشی اور مسرت کے مواقع تلاش کرنے چاہیں

دلہن کا سب کے سامنے ایسی حرکات کرنا نہ صرف اسلامی اصولوں کے خلاف ہے بلکہ ہماری معاشرتی اور ثقافتی روایات سے بھی متصادم ہے

ہمیں اپنی نئی نسل کو بھی اس بات کا شعور دینا چاہیے تاکہ وہ اپنی تقریبات کو بہتر اور بامقصد بنا سکیں۔شرم و حیا کے ساتھ تربیت بھی بہت ضروری ہے

ان جیسی عورتوں کی وجہ سے آنے والی نسلیں تباہی کی طرف جا رہی ہیں چھوٹی بچیوں کی بچپن سے ہی اعلی تربیت کریں کسی کے سامنے پیمپر تبدیل نہ کروائیں

اذان کی آواز سن کر سر پر دوپٹہ اوڑھائیں اور موبائل فون میں صرف اصلاحی چیزیں ڈاؤن لوڈ کر کے بچوں کو دیں تاکہ ان کے ذہن پر مثبت اثرات مرتب ہوں

اور ان کی معصومیت ختم نہ ہو۔اصل قصور تربیت اور ماحول کا ہے جس کی وجہ سے صحیح اور غلط سب گڈ مڈ ہو کر رہ گئے ہیں افسوس کہ ہمارے بڑے اپنی موجودہ نسل کو یہ بات سمجھانے میں ناکام رہے ہیں

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں