15

سوشل میڈیا پر مزاح طنز اور بیہودگی میں فرق ختم

سوشل میڈیا نے مزاح طنز اور بے ہودگی کے درمیان فرق کو ختم کر دیا ہمارے سے پہلے والی نسل جن کا لگاؤ کتابوں سے ہوتا تھا یا وہ معاشرے میں عام فرد تھے مزاح کی حس رکھتے تھے خوش اخلاقی سے بات کرتے اور کسی کی دل آزاری نہیں کرتے تھے زندگی کے دلچسپ پہلوؤں کو خوش اسلوبی سے اجاگر کرتے تھے مزاح کا بنیادی مقصد خوش کرنا ہوتا ہے اس کا انداز شائستہ اور اخلاقیات کی روسے اس انتہائی بلند اور مہذب ہوتا ہے مزاح نگار افراد معاشرے میں عزت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے پطرس بخاری ہوں ابن انشاء ہوں یا مشتاق احمد یوسفی پی ٹی وی نے ماضی میں بچوں کا تھیٹر کلیاں انکل سرگم ففٹی ففٹی الف نون جیسے پروگرام اور کئی ایسے دوسرے پروگرام بنائے فلم نگاروں نے منور ظریف ننھا جیسے اداکاروں کو مزاح سے بھرپور سکرپٹ دیے جو لوگ آج بھی خاندان کے ساتھ بیٹھ کر دیکھ سکتے ہیں جبکہ طنز ایک ایسی صفت جس میں معاشرتی برائیوں کو تیز تیکھے لہجے میں مزاح سے مزین کر کہ حملہ اور ہو کہ ایسی بات سمجھائی جاتی ہے کہ قارئیں کو سمجھ اسکے طنز کا مطلب بھی اصلاح ہی ہے لیکن چبھتی ہوئی سوئی کی طرح درد محسوس ہوتا ہے یہ اصل میں پہلے اور آج کے فرق کو واضع کرنا ہوتا ہے
مزاح اور طنز دونوں شروع سے ہی تھے اب سوشل میڈیا نے جو اصل کھیل شروع کیا وہ طنز اور مزاح کے بجائے بیہودہ گوئی کا فروغ کسی کی ذات پر حملے شخصیات کا کردار مسخ کر کہ حقیقت کو تڑور مڑور کر کہ پیش کرنا
نازیبا انداز فحش گوئی گالم گلوچ کسی کی ذات کو خراب کرنا ہ ہنسی کے نام پر توعین کسی کی دل آزاری ادب میں ایسی کسی چیز کی مہذب معاشرے میں جگہ نہیں بنتی
ٹی وی ڈرامے ہوں تھیٹر ہوں فلم یا پروگرام اخلاقی اقدار کا ایسے جنازہ نکالا جارہا ہے جیسے اس کے پیچھے کوئی منظم کمپین ہو مردوں عورتوں جوان بچے بچیوں کا پردہ ختم کروا کر غیر ملکی نازیبا لباس مقامی لباس کلچر اخلاق اقدار کا مذاق اور ہمارا نظام زندگی تباہ کرنا چاہتا ہےاور سوشل میڈیا جیسے ٹک ٹاک ،فیس بک یوٹیوب پر بچیاں ہو یا بچے کیا کہوں کیا لکھوں کم کو اتنا ہی سمجھا جائے جتنا ہے بے حیائی کہیں اور سے اٹھ کر گھر کے اندر تک پہنچ چکی ہے اس کا بہترین تدارک اعلی تربیت سے ہی ممکن ہے
یورپ ہو یا کوئی اور خطہ کتاب سے رشتہ ان کے لوگوں نے نہیں توڑا مگر ادھر ہمارے پڑھے لکھے افراد بضد ہیں کہ ہر چیز نیٹ پر ہے کتاب اخبار اصلاح سے مزین میگزین تعلیم و تربیت کے رسائل پڑھنے کی ضرورت نہیں سب نیٹ پر ہے جو نیٹ پر ہے وہ سب کو پتا ہے
ہر فرد کو اپنی حد تک اصلاح کا کام کرنا ہے
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور ذندگی کے ہر پہلو پر ہمارا راہنما ہےاسلام اچھے اخلاق کا درس دیتا اور زندگی کے ہر پہلو پر عملی طور پر لاگو کرنے کا حکم بھی دیتا ہے ایک اچھے مسلمان کی پہچان اس کا کردار اور گفتار ہے
اپنے کردار کو خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے مطابق ڈھالیں یہی راستہ ہماری فلاح کا ہے
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں
م ن گلیانوی

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں