68

سوانح حیات کی روح

میرا دل کرتا ہے کہ خود پر ایک جامع اور حقائق پر مبنی آپ بیتی لکھوں مگر میرا دماغ اس فیصلے کی شدید مخالفت اور مزاحمت کرتا ہے۔ کیا میں خود پر مکمل سو فیصد سچائی کے ساتھ خالص آب بیتی لکھ سکوں گا؟

نہ جانے کیوں میرا دل اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ جتنے بھی لکھاریوں نے آب بیتیاں لکھی ہیں وہ مکمل سچائی پر مبنی ہیں۔ کیسے ہو سکتا ہے کہ پونے تین سو صفحات پر مشتمل ” میرا بچپن ” MY CHILDHOOD کے عنوان پر لکھی سوانح حیات(میکسم گورکی) کی کتاب مکمل سو فیصد سچائی پر مبنی ہے۔

میں جانتا ہوں والدین کے انتقال کے بعد کسی بھی دوسرے شخص کے پاس زندگی گزارنا اور اوپر سے غربت اور بے بسی کا جال بیشک جہنم ہے

اور جابر ترین نانا کے پاس رہتے ہوئے کیسے میکسم گورکی اپنے ہنسنے کھیلنے والے خوب صورت ایام برباد کرتا ہوا پیش آتا ہے۔

وہ مکمل غیر محفوظ بچپن کا ایک نقشہ کھینچتے ہوے خود کو زمانے کا مظلوم ترین شخص کے طور پر ظاہر کرتا ہے۔ یہ بھی بجا ہے کہ یہ ناول اپنے سماجی نا انصافیوں میں روس کے معاشی حالات اور طبقاتی تفریق اور عدم مساوات کی عکاسی کرتا ہے۔

لیکن کیا اس کے باوجود انہوں نے زندگی کے وہ پہلو بھی ظاہر کیئے ہوں گے جو آپ کی نظر میں ظاہر کرنے چاہیے تھے؟ کیا ہم مان لیں کہ انہوں نے اس کے باوجود مکمل دیانتداری کے ساتھ اس سوانح حیات پر قلم استعمال کیا ہوگا؟

مگر جانے کیوں ایسا نہیں ہوتا۔ لیکن آپ گھبرایئے نہیں میں ان اشتیاق ذدہ دلوں کو بے اشتیاق کرنا نہیں چاہتا۔ میں نہیں چاہتا کہ آپ کے دل میں اپنے لکھاریوں کے لئے کسی قدر میل یا کوئی شبہ آجائے۔

جس محنت اور زیرک لب و لہجے اور انداز بیاں کے فسوں کو استعمال کرتے ہوئے لکھاری لکھتے ہیں آپ بھی ویسے ہی شوق سے پڑھیے۔ البتہ اس بات کو تسلیم کر کے آگے بڑھیے کہ اپنے بارے میں کوئی مکمل سچائی کے ساتھ آب بیتی نہیں لکھتا اور نہ لکھ سکتا ہے۔

اس میں آٹے میں نمک سچائی جبکہ آٹا مبالغہ آرائی پر قائم رہتا ہے۔ جس طرح موسی نے کوہ طور پر اپنے خدا سے دیدار کی طلب کرتے ہوئے کہا کہ (رب ارنی انظر اللیک ‘ اے میرے رب تو مجھے اپنا آپ دکھا کہ میں تجھے دیکھ سکوں) تو خدا کی طرف سے جواب آیا

کہ (لن ترانی تو مجھے نہیں دیکھ سکے گا) بالکل اسی طرح کوئی بھی لکھاری چاہتے ہوئے بھی اپنی زات آپ کو صاف آئنے کی طرح نہیں دکھا سکتا بہت سارے پہلو ایسے آجاتے ہیں

جن کو کوئی بھی لکھاری نہیں چاہتا کہ اسے کوئی جان سکے وہ چاہتا ہے کہ اس معاملے میں میرے اور میرے خدا کے درمیان تیسرا کوئی حائل نہ ہو سکے۔ فیودر دوستو ئفسکی کا ناول ” ایک پاگل کی ڈائری ” میں انہوں نے بہت اچھی بات کہی کہ ” ماضی کی کتنی ہی یادیں ہر انسان سے وابستہ ہوتی ہیں

اور یہ ایک سربستہ راز بھی ہوتی ہیں جو وہ ہر ایک کے سامنے دل کھول کر بیان نہیں کر سکتا۔ بس ایک دو دوستوں کو سنا سکتا ہے ان کو خفیہ راز بھی کہا جا سکتا ہے ””

بلکہ اسی ناول میں ایک صفحہ آگے 19ویں صدی کے ایک جرمن شاعر، نثر نگار اور ادبی نقاد کی بات درج ہے جن کا نام ہینڑچ ہائن HEINICH HEIN ہے۔ وہ اس سوانح حیات پر مبنی مواد پر کہتا ہے

کہ ”ایک سچی آب بیتی تحریر کرنا ناممکن ہے اور انسان بہت کچھ چھپانے پر مجبور ہے“ اور وہ آگے یہ بھی فرما تے ہیں کہ ”سچ بولنے کا حلف اٹھانے کے باوجود بھی ایک بہت بڑا فرانسیسی فلسفی اور مصنف ژاں ژاک روسو JEAN-JACQUES ROUSSEAU نے بہت سے جھوٹ بھی بولے ہیں۔

اور یہ سب نادانستہ نہیں بلکہ دانستہ طور پر کیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ میں آپ کو جس فیودر دوستو ء فسکی کی کتاب کا حوالہ دے رہا ہوں میرے لیے انتہائی بے معنی اور عبث ثابت ہوئی۔

یہ ایک مختصر ترین ناول ہے جس میں ایک سرکاری شخص اپنی ڈائری اپنے خیالات، احساسات اور روزمرہ کے واقعات سے بھرتا ہے۔ یہ بھی ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو اپنی ذہنی کیفیت اور اس کے نشیب و فراز کی عکاسی کرتا ہے۔

اس ناول میں بھیبہت کچھ آپ کو فضول گوئی کے اثرات ملیں گے۔ خیر اس کے پہلے صفحے پر فیودر دوستو ئفسکی نے لکھا ہے کہ آپ آئندہ صفحات میں جو کچھ پڑھیں گے وہ محظ خیالی اور آفاقی باتیں ہیں۔“

مگر کیا ان لوگوں سے آب بیتی نہیں لکھی گئی؟ کیا میں یہ امید لگا سکتا ہوں کہ آب بیتی لکھ سکوں؟ مگر معاف کیجئے گا میں ان لوگوں کے خلاف نہیں ہوں بلکہ میں جانتا ہوں کہ میں اگر خود بہت بڑا لکھاری ہوتا

تو اپنی مکمل راستی اور صداقت کے پیرائے میں کبھی نہ لکھ سکتا۔ بھلا میں یہ کیوں چاہوں گا کہ میرے سبھی راز آپ تک پہنچیں؟ کیونکہ ہر شخص کی زندگی کچھ ایسے غیر ضروری (یعنی تشہیر سے بالا) اور غیر معمولی واقعات پر ضرور مبنی ہوتی ہے جس کو کوئی بھی لکھاری یا عام شخص غیر مطبوعہ کے طور پر ہی لیتا ہے۔

لیکن آپ گھبرایے نہیں میں جانتا ہوں پڑھنے والوں کی وجہ سے ہی لکھنے والوں کی عزت اور آبرو ہے۔جب آپ شوق سے پڑھنے والے نہیں رہیں گے تو لکھاریوں سے کون پوچھے گا

جن جن لوگوں نے اس دنیا میں غیر معمولی اور لا ثانی مثالیں قائم کی ہیں وہ سب اس دنیا اور اس کے رہنے والے باشندوں سے بے نیاز تھے۔ میں اسی لیے کہتا ہوں کہ بچپن اس وجہ سے بھی اچھا تھا

کہ وہ لوگوں سے بے نیاز تھا اب تو بہت سارے کام صرف اس وجہ سے نہیں کرتے کہ لوگ کیا کہیں گے اور دل کی تاروں کو ہلانے والے لکھاری وہی ہوتے ہیں جو معاشرتی، سماجی، سیاسی اور کسی قسم کے دباو سے بے نیاز ہوتے ہیں۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں