111

زندہ والد یتیم بچے

مسعود جیلانی
نمائندہ پنڈی چک بیلی خان
موضع رنوترہ کے مصری خان جو اس وقت قتل کے مقدمات میں اڈیالہ جیل میں ہے پنڈی پوسٹ نے انکی داستان شائع کی تھی مصری خان نے جیل میں پڑھا اور مجھ سے رابطہ کر کے خود سے معاملات کے متعلق جیل سے ایک تحریر بھیجی ہے جو ثاقب ریاض نامی شخص لکھائی گئی اس کے مطابق مصری خان ولد بلند خان راولپنڈی سے45کلومیٹر دورچک بیلی خان کے موضع رنوترہ تھانہ چونترہ کا رہائشی ہے اور اعوان برادری سے تعلق رکھتا ہے مصری خان پاک آرمی سے نائیک ریٹائرڈ ہونے کے بعد کچھ عرصہ بیرونِ ملک ملازمت کی اور اس وقت مصری خان مدثر حسین و عمر فاروق کے قتل کے الزام میں یکم اگست2016ء سے اڈیالہ جیل میں پابندِ سلاسل ہے مصری خان کے خاندان کے چار افراد جن میں دو جواں سال گبریل بیٹے ، بیوی اور معصوم بیٹی جہانِ فانی سے دارالبقاء کی طرف کوچ کر چکے ہیں دونوں بیٹوں اور بیوی کو انتہائی بے دردری سے قتل کیا گیا بڑے بیٹے ملک اظہر محمود کو 21جون 2008ء کو 25سال کی عمر میں بوقت صبح آٹھ بجے اپنے گھر میں قتل کیا گیا جبکہ 27جون کو ملک اظہر کی شادی ہونا طے تھی اور شادی کی تیاریاں بھی مکمل تھیں اور یہ شادی کدہ ماتم کدہ میں بدل گیا اور مقتول کی خوشیوں کو خون میں نہلا دیا گیا۔ دوسرے بیٹے ملک رئیس احمد کو 8اپریل2015ء میں بعمر23سال بوقت رات ڈیڑھ بجے اپنے ہی گھر میں سوتے ہوئے قتل کر دیا گیا جبکہ اگلے ہی روز 9اپریل کو شام کی فلائٹ سے ملک رئیس احمد نے ملازمت کے سلسلے میں سعویہ عربیہ جانا تھاتیسری داغ، مفارقت دینے والی معصوم بیٹی جس کا نام عائشہ بی بی تھا اسکی موت کا باعث بڑے بیٹے اظہر محمود کا قتل ہے جس دن بیٹا اظہر محمود قتل ہوا اسی دن عائشہ بی بی بھائی کو خون میں لت پت دیکھ کر غم سے نڈھال و بے ہوش ہو گئی اور لاکھ کوشش کے باوجود ہوش میں نہ آ سکی اور بیٹے کے قتل کے چھ ماہ بعد 2009ء میں 8سال کی عمر میں وفات پا گئی اللہ تعالیٰ کی ذات کے بعد مصری خان کی آخری امید اور سہارا اسکی بیوی ہی تھی جو کہ معصوم بچوں کی دیکھ بھال کر رہی تھی جیل میں مصری خان کے لئے یہ بات قابلِ اطمینان و تسلی بخش تھی کہ معصوم بچے اپنی ماں کی پرورش میں ہیں ان بچوں کی عمر سے ان کی معصومیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے بیٹا اظہر علی عمر7سال، بیٹی عائشہ بی بی عمر5سال ، بیٹا محمد دلدار خان عمردو سال ہے‘ مصری خان نے سابقہ بچوں کی یاد میں مذکورہ بچوں کے نام وہی رکھے جو فوت شدہ بچوں کے تھے مصری خان کی بیوی نازیہ منیر ان بچوں کے ہمراہ اپنے میکے میں تھی اور رات کو بچے اپنی ماں کے ساتھ ایک ہی کمرے میں سو رہے تھے کہ9فروری2017ء کو بوقت صبح پانچ بجے سفاک ملزموں نے نازیہ منیر زوجہ مصری خان کو انتہائی بے دردی و بے رحمی سے ان معصوموں کے سامنے اور ان کی موجودگی میں قتل کیا اور اتفاق سے2015ء انہی بچوں میں سے بڑے دو بچوں کے سامنے ان کے بھائی کو بھی قتل کیا گیا ان بچوں نے خوف وھراس کے ماحول میں اپنی آنکھوں کے سامنے بھائی اور ماں کو قتل ہوتے اور خون میں نہا کر تڑپ تڑپ کر بے بسی میں جان دیتے دیکھا۔ کیا ان بے بس و نہتے بچوں کے سامنے یہ منظر کسی قیامت سے کم تھا جب ان کم سنوں کے سامنے ان کی ماں کو خون میں نہلا کر موت کی وادی میں دھکیل کر ماں کو بچوں سے ہمیشہ کے لئے جدا کر دیا گیا جبکہ اس وقت ان بچوں کی کل کائنات اور واحد آسرا و سہارا ان کی ماں ہی تھی مصری خان کی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ بار بار یہ کہہ رہا تھا پہلے سروں ننگے سن تے ہن پیروں وی ننگے ہوگئے ہن۔ یعنی پہلے بچے سر سے ننگے تھے اور اب پاؤں سے بھی ننگے ہو گئے ہیں کیا ان ملزموں کو جنہوں نے انسانیت کے قتل کے ساتھ قانون کا بھی خون کیا ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا، کیا عدالت کے کٹہرے میں آکر قانون کے مطابق کیفرِ کردار کو پہنچیں گے بیوی کے قتل کے گیارہ دن بعد بچے نانا اور ماموں نے عدالت میں مصری خان کے سپرد کئے اور اس وقت مصری خان کے دونوں ہاتھوں میں ہتھکڑی تھی بچے عدالت کے برآمدے میں اپنے باپ کے سامنے خوب چیخ و پکار کے ساتھ روتے رہے اور مصری خان بھی روتا رہا آدھ گھنٹہ بعد مصری خان کو لاک اپ(حوالات) میں بند کر دیا گیا اتفاق سے مصری خان کے ایک کزن ملک اختر کی بیوی وہاں پر موجود تھی مصری خان نے بچے اس کے حوالے کئے ان بچوں کا اورکوئی والی وارث نہیں، ان کا کوئی بہن بھائی قریبی ایسا رشتہ موجود نہیں جو ان کی دیکھ بھال کر سکے۔ باپ جیل میں ہے ماں دنیا سے چلی گئی یہ بچے اتنے بڑے سانحہ سے دوچار ہوئے ان کی زندگی ڈسٹرب ہوئی لاڈ پیار کرنے و ناز و نخرے برداشت کرنے والی ماں اب ان بچوں کا خواب ہی رہے گا۔ اس سانحہ نے یقیناً ان بچوں پر گہرے اثرات چھوڑے ہوں گے ، کیا یہ بچے خوف، احساسِ محرومی و احساسِ عدم تحفظ سے باہر نکل آئیں گے جبکہ ماں باپ کی عدم موجودگی میں انہیں قدم قدم پر ابتلأ و آزمائش کا سامنا کرنا ہو گا ان بچوں کا مستقبل کیا ہو گا، ان کی کفالت کون کرے گا، ان کی تعلیم و تربیت کیسے اور کس ماحول میں ہو گی؟ جن نامساعد حالات سے یہ خاندان دوچار ہوا ان کے پیشِ نظر کیا یہ بچے محفوظ ہیں‘مصری خان کا گھر اجاڑنے والے کون لوگ ہیں ؟ مصری خان کے بقول پہلے بڑے بیٹے کا ملزم ناصر محمود ولد غلام نبی ہے متعلقہ پولیس نے ملی بھگت سے لین دین کر کے ناصر محمود کو بے گناہ کر دیا تھامصری خان نے بذریعہ عدالت تفتیش تبدیل کروائی تو یہ کیس کرائم برانچ میں گیااور ناصر محمود شاملِ تفتیش ہوا،اور نہ ہی آج تک اس نے کسی عدالت کا سامنا کیا عرصہ نو سال سے اشتہاری ہے دوسرے بیٹے کا قتل کا ملزم مبشر حسین ولد مظہر حسین ہے اور یہ پہلے بیٹے کے قتل کے ملزم ناصر محمود کا بھانجا ہے ارشد محمود ولد محمد اشرف مبشر حسین کا خالو ہے مبشر حسین بھی عرصہ دو سال سے اشتہاری ہے بیوی کے قتل کے ملزمان مصری خان کے سسر کے بیان کے مطابق 5لوگ ہیں جن میں ارشد محمود ولد محمد اشرف،سجاد ولد غلام نبی،یاسر ولد غلام نبی، مبشر حسین ولد مظہر حسین، امتیاز ولد ریاض۔ سجاد اور یاسر دونوں بھائی ارشد محمود کے کزن شامل ہیں اور دونوں طرف سے ایک دوسرے کے بہنوئی بھی ہیں مقامی افراد کے مطابق مصری خان ایک خود دار، غیرت مند، بہادر شخص و غریب کا ساتھی ہے لوگوں کے جرگے کرتا تھالوگ اس پر اعتماد کرتے تھے اور اپنے مسائل کے حل کے لئے اس کے پا س آتے تھے اور یہ لگی لپٹی کے بغیر دو ٹوک و کھری بات کرتا تھا ظالم کے خلاف مظلوم کا ساتھ دیتا تھا کچھ لوگوں کو مصری خان کا یہ طرزِ عمل پسند نہیں تھا انہوں نے حسد میں آ کر اپنی انا کی تسکین کی خاطر مصری خان کو کمزور کرکے راستے سے ہٹانے کی کوشش کی اور وہ اس کوشش میں کامیاب بھی ہوئے یہ سانحات(قتل در قتل) قانون نافذ کرنے اور انصاف فراہم کرنے والے اداروں کی ساکھ پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہیں لاکھ کوشش کے باوجود ایک عام اور غریب آدمی کو انصاف کیوں نہیں ملتا؟ امیر اور غریب کے لئے قانون و انصاف کے پیمانے جدا جدا کیوں ہیں؟{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں