28

رسومات کا نام دین نہیں

آج ہمارے مسلم معاشرے میں بہت ساری باتیں بہت ساری عادتیں،بہت ساری رسومات اور بہت سارے کام ایسے رائج العوام ہیں جواسلام میں نا توفرض کے درجہ میں ہیں ناواجبات اورناہی ان کا تعلق سنت رسولﷺسے ہے

اور ناہی ان کا کرنا ضروری ہے لیکن معاشرے میں ان کی اہمیت ہم نے خودہی بڑھاچڑھاکرپیش کردی۔جس کے سامنے امیرغریب کافرق مٹادیابیوہ،یتیم مساکین کی مالی حالت کوبھی مدنظرنارکھاناہی انکے حقوق مدنظررکھا

۔بس ہرصورت کرناہے تاکہ ہماری ناک سلامت رہے کہیں ناکرنے کی وجہ سے لوگوں کے سامنے معاشرے میں ناک ناکٹ جائے اس سے بھی بڑی حیرت کی بات یہ ہے

کہ یہ سب کچھ دین اسلام کے نام پرہورہا ہے۔ کرنے والوں کی تعریف اورناکرنے والوں کوشدید تنقیدکانشانہ بنایاجاتاہے۔ یادرکھیں کسی بھی کام کو دین کانام دینے سے وہ دین کاحصہ نہیں بن جاتا

بلکہ دین اسلام اللہ کے قرآن سے نبی کریم روف الرحیم ﷺکے فرمان مبارک اعمال، افعال، کردار مبارک سے اورصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عملی زندگی سے واضح ہے

۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے سورہ مائدہ آیت نمبر3 آج کے دن اسلام مکمل ہوگیا پھرنبی کریم روف الرحیم ﷺنے جن کاموں کاحکم فرمایا جوعملی طور پر کیے

یا پھراصحاب محمدﷺنے جوخیرکے کام کئے۔نبی کریم روف الرحیم ﷺنے ارشادفرمایا مااناعلیہ واصحابی آج کے دورمیں اگر کوئی عشق کے نام پرکرے یا دین کانام لگاکرکرے

اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم قرآن وسنت اوراصحاب رسولﷺ کی زندگی کوسامنے رکھ کریہ فیصلہ کرسکتے ہیں کہ جن کاموں کو ان مقدس ہستیوں نے کیایاجن کاحکم فرمایاوہ کریں جن اعمال کوانہوں نے نہیں کیا ناحکم دیاوہ دین نہیں کیونکہ جن نیک اعمال کوہم کررہے ہیں

وہی نیک اعمال اس دورمیں بھی کئے جاسکتے تھے جیساکہ آج ہماری خوشی اور غمی کے موقع پرایسے کام ہوتے ہیں جن کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں لیکن سادہ لوح لوگوں کواسی الجھن میں الجھائے رکھتے ہیں

۔ وہ اسی کشمکش میں کرگزرتے ہیں کہ فلاں فلاں یہ کررہے ہیں توہم بھی کرگزریں جیساکہ شادی کی تقریبات میں ہندوانہ رسومات کی ادائیگی ہوتی ہے۔

آتش بازی، ڈھول،بھنگڑے رقص، ناچ گانا مہندی اپنے پرائے کے کیمرے میں محفوظ خواتین کی تصاویر ویڈیو وغیرہ جیسی فضول رسومات کے بعدجب دلہن چلناشروع ہوتی ہے

توقرآن مجیدکے سایہ میں اسے گاڑی تک رخصت کیا جاتا ہے اسی طرح جب کوئی بھی مسلمان غم کے لمحات سے گزرتاہے یعنی جب بندہ فوت ہوتا ہے

تو شریعت میں اس میت کے گھروالوں کیلئے تمام طریقے بیان کئے ہیں میت کے گھروالوں کے پڑوس، اورعزیزواقارب والوں کوچاہیے

کہ وہ اس گھروالوں کوصبرکی تلقین کیساتھ ساتھ ان کے کھانے پینے کا اہتمام کریں ان کیلئے آسانی پیداکریں ان کے گھرآئے مہمانوں کی میزبانی کریں

جبکہ ہمارے معاشرے میں ایسانہیں ہوتاہمارے معاشرے کی بے حسی دیکھئے کہ جنازہ میں میت سامنے پڑی ہوتی ہے میت کے لواحقین پرغم کاپہاڑٹوٹاہوتاہے لیکن میت کا جنازہ پڑھتے ہی دل پر پتھر رکھ کروہ یہ اعلان کرنے پرمجبورہوتے ہیں

کہ سب لوگوں کے کھانے کااہتمام کیا گیا ہے سارے کھانا کھا کرجائیں کیایہاں کوئی دعوت عام ہے جوایسااعلان کیا جاتا ہے پھرجب گھرمیں لوگ کھاناکیلئے حاضرہوتے ہیں

تواس دعوت میں یوں مگن ہوتے ہیں کہ کوئی فرق نہیں کرسکتاکہ یہ فوت شدہ کی طرف سے صدقہ کھارہے ہیں یاکہ دعوت مزید یہ کہ ایک بارپھر اعلان کیاجاتا ہے

تیجا، ساتواں، چالیسواں، سالانہ کی رسم قل کا اہتمام کیاجائے گاسارے احباب شرکت کریں اس میں باقاعدہ شرکت کی دعوت خصوصی دعوت کے طورپردی جاتی ہے

اب تویہ صورتحال ہے کہ اگر فرداً فرداً دعوت نادی جائے تورشتہ دار ناراض ہوجاتے ہیں اسلام نے بھی امیراورغریب کافرق رکھا ہے یتیم مساکین غرباء کے حقوق بیان کیے ان پر مال خرچ کرنے کو بہترین مصرف بتایا ان پر لگائے گئے مال کوصدقہ قرار دیا

جبکہ ہمارے ہاں والدین کی وفات پربعض اوقات یتیم بچوں سے بھی صدقہ کاکھانا کھایا جاتاہے اکثرکھانے والے وہ ہوتے ہیں

جواس صدقہ کے مستحق بھی نہیں ہوتے یعنی اس کا یہ مطلب ہوا اسلام نے یتیم پرمال خرچ کرنے کی ترغیب دی ہمارے رسم ورواج نے ان سے بھی مال کھانے کو ترجیح دی

اسلام کے پانچ رکن میں پہلے تین ارکان اسلام میں کلمہ (توحید ورسالت)نماز اورروزہ میں کوئی تفریق نہیں بیان کی گئی جبکہ زکوٰۃ اور حج سے جیسے اہم فریضہ سے بھی غرباء،مساکین وغیرہ کورعائت دیتے ہوئے

ان کو مستثنیٰ قراردیا یتیم، مساکین اور غرباء کو دینے کاان پرخرچ کرنے کااسلام درس دیتاہے لیکن یہاں اس معاملہ میں ایساتوہرگزنہیں ہماری ان رسومات میں ان سے بھی کھایاجاتاہے یہ ہمارے معاشرتی روزمرہ کے مسائل ہیں ہمیں سوچنا چاہیے

سمجھنا چاہیے لوگوں کیلئے آسانیاں پیداکرنے کی کوشش کرنی چاہیے ناکہ لوگوں کیلئے مسائل ومشکلات کاسبب بنیں دین اسلام اور دینی تعلیمات بہت آسان ہیں ہم نے رسم ورواج کو ترجیح دیکر خود مشکل بنادیاہے ہمیں یہ بات بخوبی سمجھ لینی چاہیے کہ دین اسلام آسان بھی ہے اوردین اسلام کاایک ایک حکم بلکل واضح بھی ہے

رسول اکرم شفیع اعظمﷺنے مسلمانوں کو خوشی اور غمی حتی کہ ضروریات زندگی میں ایک ایک لمحہ گزارنے کاطریقہ بھی سکھایا ہمیں بھی چاہیے کہ ہم دین اسلام کی تعلیمات سے فیض حاصل کریں اوراس کے مطابق عمل کریں جن باتوں کاعلم نہیں وہ سیکھیں تاکہ

ہمیں زندگی میں درپیش مسائل سے آگاہی بھی ہواوران مواقع پرہم ان کا حل تلاش کرتے ہوئےان رسومات کی جگہ فرائض واجبات اور سنن پرعمل کرتے ہوئے حقیقی معنوں آسان زندگی گزارسکیں۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں