کچھ لوگ کچھ دوست اور کچھ اللہ کے نیک بندے جس شخص کو ایک بار مل لیں اسے دس برس بعد بھی ملیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہر روز ملاقات ہوتی ہو۔ کل صبح میں اپنے بچوں کو آرمی پبلک سکول چھوڑ کر سڑک پر اپنی گاڑی سائیڈ پر روک کر تھوڑی دیر کیلئے بیٹھ گیا۔ یہ سوچا کہ رش کم ہو جائے تو روانہ ہوں گا۔ دو منٹ بعد میرے دوست رحمت روحیل کا میسج آیا جس میں یہ لکھا تھا۔ السلام علیکم شاہد بھائی۔ میں نے جواب میں وعلیکم السلام لکھا اور چند لمحوں بعد رحمت کا فون آ گیا کہ آج ملاقات کریں۔ ہماری ملاقات آج سے تین برس قبل ہوئی تھی اور پھر اس کے بعد کبھی فون پر گپ شپ تو کبھی وٹس ایپ پر اور ہر روز فیس بک پر بحث مباحثہ چلتا رہتا ہے۔ میں نے بھی ملاقات کی حامی بھر لی۔ کیونکہ میں بھی رحمت سے ملنے کیلئے بے تاب تھا۔یاد رہے کہ رحمت روحیل بہترین انسان اور تجربہ کار صحافی ہے اور یہ خوشیاں بانٹتا انسان جنگ اخبار میں کلچرل ونگ کو ہر روز رنگین کرتا ہوا پایا جاتا ہے۔ کارٹون کی دنیا کا بے تاج بادشاہ میرا یہ دوست رحمت روحیل ہے۔ دومنٹ کے اندر ہر قسم کا کارٹون بنا کر ساری دنیا میں وائرل ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اس دن ہوا یوں کہ ایک گھنٹے بعد مجھے اپنی گاڑی میں رحمت روحیل نے گھر سے لیا اور ہم فیڈرل بورڈ کسی کام کے سلسلے میں گئے۔ کام دس منٹ میں ہوگیا مگر باتیں تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔ اس شخص نے سکول کے زمانے میں کیمرہ اٹھا لیا تھا اور جیسے ہی لڑکپن میں داخل ہوا تو زندگی کے نشیب و فراز اسکی زندگی میں شامل ہوگئے مگر یہ محنتی انسان صبح سکول جاتا اور شام سے رات تک ہچکولے کھاتی زندگی میں بار بار پستا رہا۔ جس عمر میں بچے کھیل کود میں مصروف ہوتے ہیں اس عمر میں یہ محبتوں بھرا شخص اپنی زندگی کو باکردار بنانے میں مصروف رہا۔ زندگی کی تلخ راہ گزر کا حوالہ دیتے ہوئے کہنے لگا کہ جب میں سیکھنے کے مراحل سے گزر رہا تھا تو معروف لکھاری اور صحافت کے میدان کا مینار پاکستان جبار مرزا میرے چاروں اطراف کھڑے ہو جاتے اور مجھے ڈگمگانے سے پہلے ہی تھام لیا کرتے تھے اور مجھے کندن بنانے میں جبار مرزا کا کردار میرے بڑے بھائی اور والد کی طرح رہا۔ رحمت کے اس جملے سے میں گہری سوچوں میں چلا گیا اور خیال آیا کہ تعریف وہ جو کسی کی غیر موجودگی میں کی جائے۔ سامنے بیٹھ کر تو ہر کوئی تعریف کرتا ہے۔ جبار مرزا واقعی ایک بہترین انسان اور بھٹکے ہوؤں کو راہ راست پر لانے والوں میں سر فہرست ہیں۔ کبھی کبھی اپنی اہلیہ رانی بھابھی کو یاد کر کے افسردہ ہو جاتے ہیں مگر کریں بھی تو کیا کریں جس زندگی کے ساتھی کے ساتھ ساری زندگی گزری ہو وہ اچانک گم ہو جائے تو زندگی خوف زدہ سی ہوتی جاتی ہے۔ اس دن رحمت روحیل سے ماضی کی ساری باتیں ہوئیں۔ دوستو یہ میرا دوست رحمت واقعی اللہ پاک کی رحمت ہے۔ زحمت سے بچا کر اللہ کی رحمت مہیا کرتا چلا جاتا ہے۔ جنگ کلچرل ونگ کا روشن ستارہ رحمت روحیل واقعی قلم میں ایک ایسی روشنائی کی مانند ہے کہ اسے جس رنگ میں رنگنا چاہیں یہ مسرتیں لیے کالی یعنی سیاہی سے بے شمار رنگوں میں تبدیل ہوتا چلا جاتا ہے اور دوسروں کو اپنی روشنائی سے جگمگ جگمگ کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے اشک بہ بہ کہ میرے خاک پہ جب گرنے لگے
میں نے تجھ کو اور تیرے دامن کو بہت یاد کیا
اللہ کی مخلوق سے بے بہا پیار کرنے والے اس شخص کی عظمت کو بے بہا سلام پیار اور خلوص میں لپٹی ہوئی دعائیں۔ رحمت روحیل انتہائی عاجز اور ملنسار اور سلجھا ہوا شخص ہے۔ کبھی اونچی آواز میں بات نہیں کرتا۔ دھیمے لہجے میں ایسی سبق آموز بحث کرتا ہے کہ انکی باتیں دل ودماغ میں سرائیت کرتی جاتی ہیں۔ اس شخص کا چہرہ ہشاش بشاش اور مسکراہٹیں پرندوں کی پرواز لیے آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی ہوتی ہیں اور یہ کسی سلجھے ہوئے فرد کے کردار کی شفافیت کا آئینہ ہوا کرتا ہے۔ رحمت بھائی بچوں کے ساتھ بچہ لڑکوں کے ساتھ ایک بیس برس کا لڑکا اور جوانوں کے ساتھ جوانی لیے گھومتا ہوا نظر آتا ہے مگر جب کسی بزرگ کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے دیکھیں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ اس بزرگ کا بچپن کا دوست ہو۔ مطلب یہ کہ یہ انسان ہر عمر کے فرد کے ساتھ خوش وخرم دکھائی دیتا ہے۔ اولاد سے اتنی محبت کرتا ہے کہ رات دو بجے سوتا ہے صبحِ نماز پڑھ کر دوبارہ سو جاتاہے اور پھر دن کو بارہ بجے اٹھتا ہے کیونکہ یہ شخص رات تک اپنے کاموں میں مصروف رہتا ہے۔ مگر اس دن رحمت رات کو دو بجے سویا اور صبح آٹھ بجے صرف اس لیے جاگ گیا کہ رات کو بیٹی نے کہا کہ صبحِ فیڈرل بورڈ جا کر میرا یہ والا کام ہر حال میں کرنا ہے۔ میں نے دیکھا رحمت روحیل دو گھنٹے سونے کے بعد بھی اسی طرح ہنستا مسکراتا ہشاش بشاش چہرہ لیے مجھے ملا۔ یہ محبتیں بھی نا بہت عجیب ہوتی ہیں چاہے یہ اولاد سے ہوں چاہے یہ والدین سے ہوں اور چاہے یہ دوستوں سے ہوں۔ محب ہر حال محبت ہی ہوتی ہے۔ رحمت روحیل دوستوں کا دوست کم اور بھائی زیادہ دکھتا ہے۔ یہ شخص دشمنی ہر گز نہیں پالتا بس بد تہذیب لوگوں سے کنارہ کشی کر لیتا ہے۔ اچھے طریقے سے سلام کر کے دوسری طرف ہو جاتا ہے مگر بچپن کے دوست آج بھی اس کے اسی طرح دوست ہیں چاہے وہ کسی بھی مقام پر ہیں۔ بس یاد رکھنے والی بات کہ اگر کسی کا کردار اور ظرف جانچنا ہو تو یہ دیکھیں کہ کیا اس کے پرانے دوست آج بھی اس کے اسی طرح دوست ہیں یا انہیں وہ چھوڑ چکا ہے۔ اگر اسکے لنگوٹیے یار آج بھی اس کے دوست ہیں تو سو فیصد یقین کر لیں کہ یہ شخص ایک با کردار اور اخلاق بانٹنے والا اللہ کا نیک بندہ ہے۔ رحمت روحیل آج بھی اپنے بچپن کے دوستوں کا اسی طرح دوست ہے۔ رحمت اگر کوئی غلطی کر لے تو فوراً معافی مانگ لیتا ہے اور اگر کوئی اور غلط کر دے تو اسے یک دم معاف کر دیا کرتا ہے۔ رحمت کو مکمل یقین ہے کہ یہ دنیا فانی ہے کیا پتہ کل ہوں نہ ہوں۔ لہذا دوسروں کی اغلاط کو نظر انداز کر کے یہ مرد قلندر آگے بڑھتا چلا جارہا ہے۔ اور یوں یہ شخص آگے پیچھے دیکھے بغیر مثبت سوچ لے کر ترقی کی منازل طے کرتا جا رہا ہے اور جب اس کے چہرے کو دیکھیں تو یہ دوست ہر وقت اور ہر حال میں مطمئن ترین نظر آتا ہے۔ رحمت روحیل اللہ پاک آپ کو زندگی کے ہر میدان میں کامیاب فرمائے آمین۔
199