ددہوچھہ ڈیم کے متاثرین اس وقت جس کرب اور اذیت سے گزر رہے ہیں، وہ عام انسان کی سمجھ سے کہیں زیادہ گہری ہے۔ گھگھڑ قبیلے کے یہ لوگ، جو گاؤں بروالہ میں تین سو سال سے اپنی پہچان، اپنی ثقافت اور اپنی وراثت کے ساتھ آباد تھے، آج اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے گھر بار، اپنی مٹی اور اپنے بزرگوں کے نشانات مٹا رہے ہیں۔ یہ صرف مکانات نہیں گر رہے،
یہ نسلوں کی یادیں بکھر رہی ہیں، یہ تاریخ کا وہ روشن باب اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے جس نے کئی صدیوں تک اس علاقے کی شناخت کو قائم رکھا۔یہ لوگ اپنی زمین نہیں چھوڑ رہے، یہ اپنے دل کا ٹکڑا چھوڑ رہے ہیں۔ وہ آنگن جن میں بچپن کھیلا، وہ کھیت جن میں انہوں نے جوانی گزاری، وہ درخت جن کے سائے میں بیٹھ کر بزرگوں نے قصے سنائے۔سب کچھ ایک فیصلے کی نظر ہو رہا ہے، اور اس فیصلے میں ان کی رضا کم اور مجبوری زیادہ شامل ہے۔راولپنڈی کے عوام کی پانی کی ضرورت پوری کرنا یقیناً ایک اہم قومی فریضہ ہے،
مگر کیا وہ لوگ جو یہ قربانی دے رہے ہیں، ان کے جذبات، ان کا درد، ان کی تڑپ، ان کا مستقبل کیا یہ سب غیر اہم ہیں؟ حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ جو لوگ اپنی تاریخ اور جڑیں چھوڑ کر قومی مفاد میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں، انہیں مکمل انصاف اور حقیقی معاوضہ فراہم کیا جائے۔ مگر افسوس کہ پنجاب حکومت نے ان کی زمینوں اور گھروں کی قیمتیں اس قدر کم لگا دی ہیں کہ وہ ”قربانی“ سے زیادہ ”استحصال“ محسوس ہوتی ہیں۔ کچھ لوگ تو اپنے گھروں کی تعمیر کی رقم بھی پورے نہیں کر پارہے۔ یہ ناانصافی نہیں تو اور کیا ہے؟
یہ منظر دل کو چیر کر رکھ دیتا ہے کہ تین صدیاں پرانا گاؤں آج ملبے کا ڈھیر بن رہا ہے، اور اس ملبے کے ساتھ ان خاندانوں کے خوابوں کا بھی جنازہ اٹھ رہا ہے۔ ان کے چہروں پر اداسی، ہاتھوں میں لرزش، اور آنکھوں میں وہ نمی ہے جو دیکھنے والوں کو بھی سوگوار کر دیتی ہے۔یہ وقت خاموش رہنے کا نہیں۔ یہ وقت اہلِ علاقہ، سیاسی و سماجی شخصیات‘ منتخب نمائندوں اور ہر باضمیر شخص کے بیدار ہونے کا ہے۔ انہیں چاہیے کہ وہ متاثرین کے ساتھ کھڑے ہوں، ان کی آواز بنیں، ان کے حقوق کے لیے ڈٹ کر کھڑے ہوں احتجاج کا حصہ بنیں اور پنجاب حکومت سے یہ مطالبہ کریں کہ انہیں وہ معاوضہ دیا جائے جس کے وہ حقیقی حق دار ہیں۔
ان کی قربانی محض ایک علاقہ چھوڑنے کا نام نہیں، یہ اپنی تین سو سالہ تاریخ کا بوجھ دل پر رکھ کر آگے بڑھنے کا عمل ہے۔ ان کی محبتِ وطن، ان کی وطن کے لیے خدمات، اور ان کی صدیاں پرانی وابستگی کا بدل کوئی نہیں دے سکتا۔ مگر کم از کم انصاف تو دیا جا سکتا ہے۔عزت کے ساتھ، احترام کے ساتھ، اور ان کی قربانی کو تسلیم کرتے ہوئے۔ان متاثرین کا یہ درد، ان کی بے بسی ان کی سسکیاں اور ان کا دکھ ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے۔ اگر آج ہم ان کا ساتھ نہ دیں، تو کل تاریخ ہم سے سوال کرے گی کہ جب قربانی دینے والے انصاف مانگ رہے تھے تو ہم کہاں تھے؟
سردار محمد بشارت