88

حکومتی دعوے اور لوڈ شیڈنگ

عاطف کیانی

موجودہ حکومت کا عرصہِ اقتدار اب پانچویں اور آخری سال میں داخل ہو گیا ہے مگر بجلی کی لوڈشیڈنگ پہلے سے زیادہ ہو گئی ہے الیکشن مہم کے دوران لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے دعوے کا پورا ہونا اس سال بھی نظر نہیں آتا ۔ کبھی تین ماہ کبھی چھ ماہ بھی ایک سال تو کبھی دو سال اور اب 2018 میں لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے ۔ مگر اس وقت صورتحال ایسی ہے کہ شدید گرمی کے موسم میں دیہات میں پندرہ سولہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے خصوصاً کلر سیداں اور اس کے اردگرد کے علاقوں میں شدید ترین لوڈ شیڈنگ جاری ہے ۔بجلی کی کمی کو پورا کرنے کے لیئے جو منصوبے شروع کیے گئے تھے وہ بھی ابھی تکمیل کے مراحل میں ہیں کچھ چلنے سے پہلے ہی بند ہو چکے ہیں اور کچھ چلتے چلتے فنی خرابی کے باعث بندہو جاتے ہیں وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف صاحب نے تو بجلی کا بحران حل نہ کر سکنے کی صورت میں استعفیٰ کا اعلان بھی کیا تھا، مگر نہ بجلی کی کمی پوری ہوئی اور نہ انھوں نے استعفیٰ دیا۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے وزرا ء حتیٰ کے وزیرِ اعظم صاحب نے بھی صورتحال کے بحران کو جلد حل کرنے کے کئی اعلانات کیے تھے مگر صورتحال جوں کی توں ہی رہی ۔بجلی کی کمی کی وجہ سے کئی لوگوں کے کاروبار بند ہو چکے خصوصاً چھوٹے صنعتکار اور کاروباری طبقہ شدید متاثر ہے ۔ چھوٹے دیہاڑی دار مزدور طبقہ جن کا گزر اوقات ہی اسی جن کا گزر اوقات ہی اسی کام پر ہوتا ہے کہ وہ کام کریں گے تو روزی روٹی کا بندوبست ہو گا وہ بھی مجبور اور بے بس ہو چکے ہیں ۔ حکومت نے تو دعوے کرتے کرتے اتنا عرصہِ اقتدارمکمل کر لینا ہے مگر ان غریب مزدور طبقے کا کیا حال ہوگا جن کا گزر اوقات ہی اسی پر منحصر ہوتا ہے ۔اب رمضان مبارک کی آمد آمد ہے اور اس مبارک مہینے میں بھی اگر صورتحال ہی رہی تو عوام کو بہت زیادہ پریشانی کا سامنا کرناپڑ سکتا ہے ، حکومت کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ صرف زبانی کلامی دعووں پر اکتفا کرے بلکہ عملی اور ٹھوس اقدامات کر کے عوام کو اس عذاب سے چھٹکارا دلوائے ۔ پاکستان میں عموماً ایسے ہی ہو تا آ رہاہے اور اب بھی جوں جوں الیکشن کا وقت قریب آتا جارہا ہے تمام سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر الزامات کے ساتھ ساتھ عوام کے ساتھ جھوٹے وعدے اور دعوے کرتے نظر آتے ہیں ۔ عوامی جلسے ہو ں یا اسمبلی کے اجلاس سب لیڈر ایک دوسرے پر الزام تراشیوں پر لگے ہوئے سب ایک دوسرے کو جھوٹا ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ مگدر بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ الیکشن مہم کے دوران ایک دوسرے پر الزام لگانے والے بعد میں جس طرف ان کا مفاد وابستہ ہو اور اقتدار میں سے اگر ان کو کچھ حصہ بھی مِل جائے تو سیاسی لیڈر عوامی مفادات کو چھوڑ کر صرف اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں ۔ عوام سے ان کو کوئی سروکار نہیں ہوتا ۔ وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خاں صاحب جن کا حکومت اور پارٹی میں ایک اہم مقام ہے ان کو بھی اس صورتحال کی طرف دیکھنا ہوگا کہ ان کے حلقے کی عوام کا لوڈشیڈنگ کی وجہ سے جینا محال ہو چکا ہے ۔ خصوصاً ان دنوں شدید گرمی کی وجہ سے عوام کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔ اگر بجلی کی صورتحال اس سال بھی ایسی ہی رہی تو حکومت کے کیے گئے دوسرے اہم کام ایک طرف پر بجلی کے بحران کی وجہ سے آئندہ الیکشن میں خصوصاً حلقہ این اے 52 کے عوام بھی سوچ کر اور ان کے بیتے گئے پچھلے پانچ سالوں کا حال بھی ووٹ ڈالتے ہوئے ان کو سو چنے پر ضرور مجبور کر ے گا۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں