کاشف حسین/ہم جو کھنکھناتی مٹی سے بنائے گئے ہم جو خاک کے خمیر سے اٹھائے گئے ہم جو خاک ہی میں سلائے جائیں گے۔ہم جو فتنہ وفساد کے دور میں زندہ ہیں جہاں وحشتوں نے ہمارا گھر دیکھ لیا ہے یہاں جو آتا ہے وہ بستی کے معصوم ومظلوم رہنے والوں کے سینے میں امید کے دریا لہراتا ہے لیکن یہاں کے حکمرانوں نے محض تجربات کیے زیادہ مطلق العنانی کے ‘زیادہ فرعونیت کے بے سامانی کے تجربے‘ہمارے مقدر میں کبھی سکھ کی گھڑیاں نہیں لکھی گئیں ہم ہر شخص سے امید لگاتے ہیں ہر آنے والے کا دامن بہت دردمندی اور بہت خوش امیدی سے تھامتے ہیں لیکن ہر بار دھتکارے جاتے ہیں ظلم و جبر زیادتی وانصافی کے عادی اس معاشرے میں اگر درد مند دل رکھنے اور کچلے اور پسے لوگوں کی دلجوئی کرنے نہ ہوں تو انسانیت گھٹ کر مر جائے خطہ پوٹھوار پر خدائے بزگ وبرتر کی خاص مہربانی یہ ہے کہ یہاں اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنے والے مہد سے لحد کے سفر میں اپنی کمائی سے اللہ کی راہ میں بے دریغ خرچ کرتے ہیں اور بظاہر خالی ہاتھ دنیا سے رخصت ہو کر آخرت کا بے شمار سرمایہ پاتے ہیں پوٹھوار کی دھرتی پر بسے صاحب ثروت لوگوں کی اکثریت خدا کے عطا کردہ مال وزر سے غرباءپر خرچ کرنا فرض عین سمجھ کر کرتے ہیں ایسے بے شمار لوگ بڑی خاموشی سے اپنے مشن کو جاری رکھے ہیں جو نہیں چاہتے کہ ان کی جانب سے اپنے خدا کی خوشنودی کے لیے کیے جانے والے فلاحی کاموں کی تہشیر کی جائے لیکن جس معاشرے میں ہر طرف برائی کا راج ہو مایوسی اور بددلی پنپ رہی ہو جہاں دوسروں کے منہ کا نوالہ چھیننا حق سمجھ لیا جائے وہاں ایسے افراد کی موجودگی کا ذکر لوگوں کی ہمت اور حوصلہ بڑھانے کا سبب بنتا ہے میں ایسے خدا ترس افراد کا تعارف اس سوچ سے کرواتا ہوں کہ ان کانام ان بے پہنچ اور مستحق لوگوں تک پہنچ سکے جو ایسے لوگوں کی نگاہ سے اوجھل ہیں اور خود بھی کسی مسیحا بارے نہیں جانتے۔آج میں پنڈی پوسٹ کے قارئین سے جس شخصیت بارے معلومات شیئر کرنے جارہا ہوں وہ انہتائی پردہ داری سے اپنے خالق ومالک کی رضا کے لیے دیار غیر میں رہتے ہوئے اپنے علاقے کے مستحقین کی خدمت میں مصروف ہیں واضح رہے میری ان سے کبھی کوئی ملاقات نہیں ہوئی نہ بالمشافہ نہ فون پر‘البتہ کچھ ذرائع سے ان کی صلہ رحمی بارے پتہ چلا تو ازخود ان پر لکھنے کا من چاہا۔ان کے بارے اپنے طور جتنی معلومات مل سکیں وہ قارئین کی نذر کرتا ہوں میری آج کی ڈائری کا مرکز بیول کے سپوت حال مقیم لندن(یوکے) جناب حبیب رشید کی شخصیت ہے جو اپنی والد گرامی جناب کیپٹن عبدالرشید مرحوم کی جانب سے انسانی حکومت کے حوالے شروع کردہ مشن کو بڑی کامیابی سے جاری رکھے ہوئے ہیں کیپٹن عبدالرشید مرحوم کی فلاحی کاموں کے حوالے سے بے پناہ خدمات ہیں 2011میں ان کی وفات کے بعد ان کے ہونہار بیٹے حبیب رشید نے ان کی روشن شمع کو بجھنے نہیں دیا بلکہ اس شمع سے مزید شمع روشن کرنے کاسلسلہ جاری رکھا ہوا ہے آپ نے ابتدائی تعلیم بیول سے حاصل کی میڑک کلئیر کرنے کے بعد آپ برطانیہ تشریف لے گئے جہاں لندن میں آپ ایک ریسٹورنٹ چلانے کے علاوہ ٹیکسی اسٹینڈ اور ایک ٹورازم کمپنی کے بھی اونر ہیں آپکو برطانیہ میں پاکستانی کیمونٹی کی تنظیم کے الیکشن لڑ کر صدرمنتخب ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے ملنے والی معلومات کے مطابق آپ غرباءکو اپنے خرچ سے حج وعمرے پر بھی بجھوانے کا عظیم کام کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں۔آپ نے اپنی ذاتی آمدنی سے کئی مساجد اور درس گاہ تعمیر کروائیں۔اس وقت بھی آپ اپنی تعمیر کردہ کئی مساجد کے پیش امام صاحبان کو اپنی جیب سے تنخواہیں ادا کرتے ہیں۔علاقے کے کئی خاندانوں کو ماہانہ راشن کی فراہمی بھی آپ فرض سمجھ کر رہے ہیں۔آپ جامع مسجد بیول کمیٹی کے صدر بھی ہیں اور لندن میں رہ کر بھی مسجد کے معاملات کو احسن طور دیکھتے ہیں آپ ربیع الاول کے ماہ مقدس میں بیول ہونے سجاوٹ اور میلاد کی منعقد ہونے والی محفلوں میں بھی اپنا پھرپور کردار ادا کرتے ہوئے مالی تعاون کرتے ہیں۔آپ نے لوگوں کو پانی کی فراہمی کے لیے کئی کنویں بھی کھدوائے جس سے علاقہ مکین آج بھی مستفید ہورہے ہیں آپ ”زندگی بیول نی“نامی پیج کے ممبر بھی ہیں جس کے پلیٹ فارم کو بھی آپ دکھی انسانیت کی خدمت کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔آپ نوجوانوں میں صحت مندانہ سرگرمیوں کا رحجان پیدا کرنے کے لیے مختلف کھیلوں کے مقابلے کروانے میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں جو آپ کی بیول میں ٹیم کے ذرائعے منعقد کروائے جاتے ہیں۔چونکہ میرا ان سے رابطہ نہیںہے اس لیے ان کی ذات پر قلم اٹھانے سے پہلے ان کی اجازت نہ لے سکا لیکن ان کا تعارف انتہائی نیک نیتی اور خلوص سے کر رہا ہوں صرف اس لیے کہ اللہ کی رضا کے لیے انسانیت کی خدمت کا بیڑا اٹھائے افراد کی تعریف بھی خدا برزگ وبرتر کے نزدیک نیک عمل ہے شاید خدا کی راہ میں زندگی گذارنے والے کا ذکر شاید میری بخشش کا بھی ذریعہ بن جائے۔
202