ضیاء الرحمن ضیاء/بیوروکریسی انتہائی طاقتورشعبہ ہے اس کے پاس لامحدود اختیارات ہوتے ہیں جن کا اکثر ناجائز استعمال کر کے ریاست کو یرغمال بنایا جاتا ہے۔ اکثر منتخب حکومتیں اور اراکین اسمبلی بھی شکوہ کرتے ہیں کہ ہمیں بیورو کریسی کام نہیں کرنے دے رہی یا ہماری ناکامی کی وجہ بیوروکریسی ہے۔ بیورو کریسی سے ہمارا ہر روز واسطہ پڑتا ہے۔ جی ہاں! یہ سرکاری افسران ہوتے ہیں جو ہر سرکاری محکمے میں موجود ہوتے ہیں اور اپنے محکمے کے تمام امور ان کی مرضی کے مطابق انجام پاتے ہیں۔ جس کام کے لیے سرکاری ملازمین کا جی چاہتا ہے وہ تو فوراً ہو جاتاہے لیکن جس کام میں افسر کی مرضی شامل نہ ہو تو اس کا انجام پانابہت مشکل ہو جاتا ہے۔ ویسے تو حکومت بھی کافی طاقتور ہوتی ہے لیکن اس کی بہت سی مجبوریاں اسے اپنی طاقت کے ناجائز استعمال سے روک دیتی ہیں۔ حکومتی اراکین عوامی نمائندے ہوتے ہیں اور وہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتے ہیں‘ انہوں نے عوام سے بہت سے وعدے کر کے ووٹ حاصل کیے ہوتے ہیں اس کے علاوہ وہ ووٹ دینے کی وجہ سے عوام کے ممنون ہوتے ہیں اور وہ پانچ سال کے لیے منتخب ہو کر آتے ہیں اپنی اس مدت کے اختتام پر انہیں آئندہ عہدے حاصل کرنے کیلئے پھر عوام کے پاس جانا ہوتا ہے لہٰذا وہ کسی حد تک عوام کا خیال وعدے پورے کرنے پر مجبور کرتا ہے اور وہ مکمل طور پر تو نہیں لیکن کسی حد تک عوام کی خدمت کرہی لیتے ہیں۔ اس کے برعکس بیوروکریٹس عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر نہیں آتے بلکہ ان کا انتخاب براہ راست ہوتا ہے انہیں اپنے انتخاب کیلئے عوام سے وعدے بھی نہیں کرنے ہوتے بلکہ وہ اپنی محنت یا سفارش کے بل بوتے پرمنتخب ہوتے ہیں اور وہ پانچ سال کیلئے منتخب نہیں ہوتے بلکہ ساٹھ سال کی عمر تک اپنے عہدوں پر براجمان رہتے ہیں اور مدت گزرنے کے ساتھ ترقی پاتے رہتے ہیں اور بسا اوقات ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کنٹریکٹ پر دوبارہ اسی یا کسی دوسرے محکمے میں بھرتی ہو جاتے ہیں یوں انہیں اپنے عہدے سے ہٹائے جانے یا پانچ سال کے بعد مدت ختم ہونے یا عوام کے پاس واپس جانے کا خوف نہیں ہوتا تو اس لیے وہ عوام کے کام بھی نہیں کرتے اور ملکی نظم و نسق کو درست سمت چلانے میں خاطر خواہ دلچسپی نہیں لیتے جس کی وجہ سے ملک کا نظام درست سمت گامزن نہیں ہوتا۔ وہ اپنی مرضی کے قوانین بناتے ہیں اور انہی پر عمل کرتے ہیں، قوانین بنانے میں وہ اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہیں۔ بیوروکریسی کی اس کارہائے منصبی میں کوتاہی کی بڑی وجہ خوف خدا کا نہ ہونا ہے اور خوف خدا دین کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے جو شخص جتنا دین سے دور ہوتا ہے اس میں خوف خدا کی اتنی ہی کمی ہوتی جس کی وجہ سے اس میں دوسروں کا احساس نہیں ہوتا۔ ہماری بیوروکریسی میں غالب اکثریت ایسے افراد کی ہے جو دین کا بہت کم علم رکھتے ہیں اور دین کی سمجھ ان میں نہایت کم ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ ان میں دوسروں کا احساس نہیں ہوتا۔ جبکہ ہمارے علماء کرام بیوروکریسی کے شعبے سے بہت دور ہیں دیگر تمام شعبوں میں علماء کرام کی کسی نہ کسی درجہ میں نمائندگی موجود ہے۔ سیاست کو ہم بہت اہم شعبہ سمجھتے ہیں تو وہاں دینی سیاسی جماعتیں موجود ہیں جن کے نمائندے اسمبلیوں میں اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ لیکن بیوروکریسی کی جانب نہ جانے کیوں ہم نے توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے وہاں علماء کرام کی بالکل نمائندگی نہیں ہے اگر کہیں کوئی دو چار ہیں بھی تو وہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس لیے کہ مقابلے کے اتنے بڑے میدان میں دو چار افراد کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ مدارس کے طلباء اکثر بہت ذہین ہوتے ہیں اگر انہیں اس شعبے کی طرف رغبت دلائی جائے تو یقینا ان کی ایک بڑی تعداد سی ایس ایس وغیرہ کے امتحانات میں ممتاز حیثیت میں کامیابی حاصل کر کے اعلی سرکاری عہدوں تک پہنچ جائیگی جہاں سے وہ ایسے افراد کا راستہ روکنے کی کوشش کریں گے جو ملک اور دین دونوں کے لیے مضر ہیں۔ ہم اکثر مساجد و مدارس میں بیٹھ کر ایسے لوگوں کے خلاف تقاریر تو بہت کرتے ہیں لیکن ان کے خلاف کچھ کرنہیں سکتے کیونکہ ہمارے پاس اختیارات نہیں ہوتے تو کیوں نہ ہم ایسے شعبے میں جائیں جہاں ہمارے قلم کی ایک جنبش حکم کا درجہ رکھتی ہو۔ اس کے علاوہ ہر سال مدارس سے ہزاروں کی تعداد میں طلباء کرام سند فراغت حاصل کر کے نکلتے ہیں تو مساجد و مدارس میں انہیں کھپانے کی جگہ نہیں ہوتی نتیجتاً یہ فاضلین ٹیوشن پڑھانے اور آن لائن اکیڈمیوں میں معمولی ملازمت اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں تو کیوں نہ ان کی صلاحیتوں کو ایسی جگہ استعمال کیا جائے جو ملک و ملت کے لیے مفید ہوں۔ ان صلاحیتوں کا بہترین مصرف مساجد و مدارس میں خدمات سرانجام دینے کے بعد بیوروکریسی ہے۔ علماء کرام سے گزارش ہے کہ مدارس میں طلباء کو بیوروکریسی میں شمولیت کی ترغیب دیں اوراس اہم شعبے میں شمولیت کے لیے تربیت فراہم کریں تاکہ انہیں معلوم ہو کہ ہم نے اس شعبے میں جا کر کیسے خدمات سرانجام دینی ہیں اور اس سلسلے میں ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں؟ قوی امید ہے کہ بڑی تعداد میں علماء کرام کی بیوروکریسی میں شمولیت کے بعد ملک کے حالات کافی حد تک بہتر ہو جائیں گے اور دینی حلقوں کے تحفظ و دفاع کے ساتھ ساتھ باطل قوتوں کا راستہ بھی روکا جا سکے گا۔
206