83

امریکہ کا ٹرمپ اور مسلم دنیا

طاہر یاسین طاہر
تاریخی عمل جاری رہتا ہے،جمود سے تاریخ کو سخت بیزاری ہے۔یہ ہم ہیں جو سمجھتے ہیں کہ تاریخ کا دھارا ہماری مرضی سے بہہ رہا ہے۔ ایسا قطعاً نہیں، تاریخ خود بنتی ہے۔انسان،فرد،قوم ،قبیلے،ریاستیں اور حکومتیں تاریخ کا ورق ہوتے ہیں۔ٹرمپ بھی ایک دن تاریخ کا رزق ہو جائے گا۔مگر کیا ٹرمپ اور امریکہ تاریخ کے ایک ہی صفحے پہ کسی افسوس ناک سطر کا نقش ہوں گے؟کیا ٹرمپ کا بھی وہی انجام ہو گا،جو دنیا کے ہرمتکبر شخص کا ہوتا آیا ہے؟ کیا امریکہ بھی اسی انجام سے دو چار ہونے والا ہے،جو ہر طاقت اور عروج کا منطقی مقدر ہے؟کیا ایک طاقت کے ردعمل میں دنیا کے نقشے پر ایک دوسری بڑی طاقت کا ظہور ہو چکا ہے؟کیا ٹرمپ کے انتہا پسندانہ مزاج کے باعث امریکہ دنیا بھر سے مزید نفرت سمیٹے گا؟کیا امریکی معیشت و حکمرانی کا زوال قریب ہے؟کیا اسرائیل کی سرپرستی امریکہ کی سفارتی مجبوری ہے؟کیا واقعی ٹرمپ اپنی طبع میں ایک متعصب شخص ہے؟کیا واقعی ٹرمپ سفارتی آداب سے بالکل نا بلد ہے؟مذکور اور ان سے جڑے کئی ذیلی سوالات علمی وقلمی حلقوں میں ضرور زیربحث آنے چاہیے۔ہر سوال دوسرے سے مربوط اور اپنے ساتھ تاریخ کا ایک پورا باب رکھتا ہے۔امریکہ ابھی تک ایک تسلیم شدہ عالمی طاقت ہے،اور بے شک ہے،کوئی پانچ درجن کے قریب مسلم ممالک بھی امریکہ کو ہی قلب و جاں سے “اصل” طاقت جانتے بھی ہیں اور مانتے بھی ہیں۔ اپنے تنازعات میں بھی اسی مردہ باد امریکہ سے مدد مانگی جاتی ہے۔استثنٰی موجود ہے مگر آٹے میں نمک کے برابر۔یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ مسلم ممالک اپنی معیشت،تجارت،ٹیکنالوجی ،حتی ٰکہ زیر زمین خزانے تلاش کرنے تک میں امریکہ ،ویورپی ممالک پہ انحصار کریں اور پھر امریکہ و اس کے یورپی اتحادیوں کو کسی عالمی تنازع پر ڈیڈ لائن بھی دے دیں۔یہ حسِیں خواہش کی تو جا سکتی ہے مگر زمینی حقائق عالمِ اسلام کی اس خواہش کے لیے مدت سے مدد گار نہیں ہیں۔ہم مسلم ممالک اپنی سیکیورٹی تک کے لیے یورپی ٹیکنالوجی اور تھینک ٹینکس کی رپورٹس و تجزیوں پہ انحصار کرتے ہیں۔آج بھی مسلم دنیا کے” مقدس ممالک” میں امریکی اڈے موجود ہیں۔کیا او آئی سی یا عرب لیگ،یا کوئی اور پلیٹ فارم امریکی سفارتی جارحیت کا مقابلہ کر سکے گا؟اگرچہ یورپی ممالک نے بھی یروشلم پہ امریکی فیصلے کے خلاف آواز بلند کی، لیکن جب کوئی تحریک اٹھائی جائے گی تو کیا مذہب کے نام پر چلنے والی تحریک،میں یورپی ممالک مسلم دنیا کے ساتھ ہوں گے یا امریکہ کے ساتھ؟غیر مقبول باتیں قارئین اور تجزیہ کے نام پہ بیانیے بیچنے والوں کے سینے پہ مونگ دلتی ہیں۔ہمارا المیہ مگر یہ ہے کہ ہم زمینی حقائق کو درک نہیں کر پاتے۔اس وقت عالمی تجارت کا ایک ہی پیمانہ ڈالر ہے۔ٹیکنالوجی پہ امریکہ کی حکمرانی ہے۔فضاؤں کا سینہ چیرنے والے جہاز امریکی و یورپی ایجاد کا مظہر ہیں۔جنگی میدان میں امریکہ و نیٹو کی مہارت قابل رشک ہے۔اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ نیٹو یا امریکہ کو افغانستان میں ،شکست ہوئی ہے تو اسے اس صدی کی بڑی غلط فہمی ہوئی ہے۔ افغانستان میں بیٹھ کر امریکہ جو کرنا چاہتا تھا وہ کر رہا ہے۔امریکہ افغانستان کو مکمل فتح کرنے تو آیا ہی نہیں تھا۔وہ افغانستان میں بیٹھ کر بھارت کے ذریعے پاکستان کو زخم لگا رہا ہے۔وہ افغانستان میں بیٹھ کر چین کو گھور رہا ہے، وہ افغانستان میں بیٹھ کر روس پر نظریں جمائے ہوئے ہے،وہ افغانستان میں بیٹھ کر ایران کو آنکھیں دکھا رہا ہے،وہ افغانستان میں بیٹھ کر داعش کی مالی و تکنیکی سر پرستی کر رہا ہے۔البتہ داعش کا فکری بیانیہ بالکل اپنا اور خالص مذہبی بیانیہ ہے۔ جسے امریکہ اپنے حق میں استعمال کر رہا ہے۔جب امریکہ، افغانستان میں بیٹھ کر خطے کے معاملات کو براہ راست دیکھ رہا ہے تو اسے واپس جانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟القاعدہ ہو یا داعش، النصرہ یا افغانی و پاکستانی طالبان،سب اپنے اپنے “جہادی” بیانیے میں امریکی مفادات کے امین ہیں اور یہی زمینی حقیقت بھی ہے مسلم دنیا کے پاس سوائے سفارتی محاذ کے کوئی محاذموجود ہی نہیں،یہ سفارتی محاذ بھی ہنر مندی کا تقاضا کر رہا ہے۔یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دے کر امریکہ نے عالمی سطح پہ تسلیم شدہ تنازع میں براہ راست،اسرائیل کے حق میں سفارتی دخل اندازی کر کے اپنی عالمی حیثیت پر خود ہی سوالیہ نشان ثبت کر دیا ہے۔اس پہ ٹرمپ کا مسلم دنیا کے لیے بیان، کہ جو ملک اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں یروشلم کے مسئلے پر امریکہ مخالف ووٹ دیں گے ان کی امداد بند کر دی جائے،امریکہ کی خطے، دنیا اور اسرائیل دوستی کی آئندہ کی پالیسی کا عکاس ہے۔بے شک افسوس ناک حقیقت یہی ہے کہ مسلم ممالک آپس میں الجھے ہوئے ہیں، فروعی و علاقائی اختلافات اس قدر گہرے ہیں کہ باوجود خواہش کے انھیں کم نہیں کیا جا رہا،اور مستقبل قریب میں بھی ایسی کوئی امید نظر نہیں آتی۔اجتماعات،جمعہ کے خطبات اور دعائیہ تقاریب میں امریکہ و عالمِ کفر کی بربادی کی دعائیں تو کی جا سکتی ہیں اور بڑے” لحن “سے کی بھی جا رہی ہیں،مگر ابھی تک کوئی دعا بابِ تاثیر کو چھو کر نہیں آئی۔بے شک فلسطین کا مسئلہ عربوں کی اپنی کوتاہیوں اور سیاسی کج فہمیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔فی الواقع عالم انسانیت کی توجہ اس مسئلے کی طرف لانے کے لیے کسی ایسے تھینک ٹینک کی ضرورت ہے جو امریکہ،یورپ اور دنیا بھر سے عدل پسند انسانوں اور بیدار مغز تجزیہ کاروں کو اپنا ہم نوا بنا سکے۔جو امریکی تھینک ٹینکس کے تجزیوں کو دلائل سے رد کر سکے ۔ ٹرمپ کے جارحانہ رویے اور یروشلم پہ امریکی فیصلے کے عالمِ انسانیت پر پڑنے والے منفی اثرات سے دنیا کو آگاہ کر سکے۔ابھی تک مسلم دنیا میں ایسا کوئی تھینک ٹینک نہیں جو اس زاویے پہ کام کر رہا ہو۔ ہاں البتہ ٹرمپ کو بد دعائیں دے کر عالمِ اسلام کے درد مند سمجھتے ہیں کہ وہ علم و ہنر اور اقتصادیات میں کوسوں آگے امریکہ و یورپ کو رام کر لیں گے۔ ایسا ممکن نہیں

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں