columns 210

امام حسین علیہ السلام حق کا استعارہ

نسل انسانی کے انتہائی ابتدائی ایام میں ہی معرکہ حق و باطل شروع ہو گیا تھا یعنی قابیل اور ہابیل کی لڑائی یہ حق و باطل کا پہلا ٹکراؤ تھا چونکہ اس وقت نسل انسانی کے ابتدائی ایام تھے اس لئے یوں ہوتا تھا کہ اماں حوا علیہا السلام کے ہاں ایک حمل سے جڑواں لڑکی لڑکا پیدا ہوتے تھے

پھر دوسرے حمل میں بھی اسی طرح لڑکی لڑکا پیدا ہوتے تھے تو پہلے حمل کا لڑکا اور دوسرے حمل کی لڑکی ان دونوں کا نکاح کرا دیا جاتا تھا اور اسی طرح پہلے حمل کی لڑکی اور دوسرے حمل کے لڑکے سے شادی کر دی جاتی تھی یہ ان ابتدائی ایام میں بنی آدم کی افزائش نسل کے لیے جائز تھا

جو بعد ازاں حرام قرار دے دیا گیا حضرت آدم علیہ السلام نے قابیل کا نکاح لیودا کے ساتھ اور ہابیل کا اقلیما کے ساتھ کرنا چاھا جو اس وقت شریعت میں جائز تھا لیکن قابیل نے ماننے سے انکار کر دیا کیونکہ ہابیل کی بہن خوبصورت نہ تھی اور قابیل کی بہن خوبصورت تھی تو قابیل نے چاہا کہ دستور سے ہٹ کر اپنی ہی بہن سے نکاح کر لیحضرت آدم نے

اس سے منع کیا آخر یہ فیصلہ ہوا کہ تم دونوں اللہ کے نام پر کچھ قربان کرو جس کی خیرات قبول ہوجائے گی اس کا نکاح اس کے ساتھ کردیا جائے گا مروی ہے

کہ بڑا بھائی قابیل کھیتی کرتا تھا اور ہابیل جانوروں والا تھا اب ان دونوں نے خیرات نکالی روایت میں ہے کہ ہابیل نے اپنے جانوروں میں سے بہترین اور مرغوب و محبوب جانور اللہ کے نام پر خوشی کے ساتھ قربان کیا برخلاف قابیل کے اس نے اپنی کھیتی میں سے نہایت ردی اور واہی چیز اور وہ بیدلی سے اللہ کے نام نکالی آگ آئی اور ہابیل کی نذر تو جلا گئی

جو اس زمانہ میں قبولیت کی علامت تھی اور قابیل کی نذر قبول نہ ہوئی چونکہ قابیل اب مایوس ہوچکا تھا کہ اس کے نکاح میں اس کی بہن نہیں آسکتی

اس لئیاس نے اپنے بھائی کو قتل کی دھمکی دی (ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ یہ مینڈھا جنت میں پلتا رہا اور یہی وہ مینڈھا ہے جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بدلے ذبح کیا) اب اس نے ٹھان لی کہ میں اس کانٹے ہی کو اکھاڑ ڈالوں موقع کا منتظر تھا ایک روز اتفاقاً حضرت ہابیل کو آنے میں دیر لگ گئی تو انہیں بلانے کیلئے حضرت آدم نے قابیل کو بھیجا راستے میں ہی اس نے انہیں قتل کر دیا ہابیل کہتے رہ گئے

کہ اللہ کو کیا جواب دے گا اللہ کے ہاں اس ظلم کا بدلہ تجھ سے بری طرح لیا جائیگا اللہ کا خوف کر مجھے قتل نہ کر لیکن اس بیرحم نے اپنے بھائی کو مار ہی ڈالا یہ بنو ادم میں حق و باطل کا پہلا ٹکراؤ تھا

اس کے بعد جوں جوں وقت گزرتا رہا حق و باطل کا ٹکراؤ کبھی چھوٹے پیمانے پر تو کبھی بڑے پیمانے پر ہوتا رہا جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ٹکراؤ نمرود کے ساتھ حضرت موسی علیہ السلام کا ٹکراؤ فرعون کے

ساتھ اسی طرح باقی انبیاء علیہم السلام کا ٹکراؤ اپنے وقت کی باطل قوتوں کے ساتھ ھوتا رھا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دین اسلام کی دعوت پیغام بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ دنیا تک پہنچا دیا

جس کی گواہی حجۃ الوداع کے موقع پر صحابہ کرام نے دے کر مہر تصدیق ثبت کر دی اپ کی ظاہری حیات کے بعد اپ کے خلفاء نے اپ کی پیروی کرتے ہوئے بڑے ہی احسن انداز سے دنیا کے سامنے دین اسلام کو عملا نافذ کر کے

اس کی خوبیوں کو اجاگر کیا امت مسلمہ کی بدبختی کہ خلفائے راشدین جن کا تعین بھی خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا تھا

کہ میرے بعد 30 سال تک خلافت رہے گی سعید بن جمہان کہتے ہیں کہ ہم سے حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا میری امت میں تیس سال تک خلافت رہے گی پھر اس کے بعد

ملوکیت آ جائے گی
(ترمذی)خلافت راشدہ کے بعد ملوکیت کے دور کا اغاز ہوا دھیرے دھیرے ملوکیت اپنے شباب پر پہنچی اور یزید میں تخت حکومت کو سنبھال لیا

اور یہاں سے ہی دور جہلیت ظلم و ستم نا انصافی اسلامی اقدار کی پامالی بیت المال کو رعایا کی امانت کے بجائے اپنی ذاتی جاگیر اور خزانہ بنانا اقرباء پروری کنبہ نوازی جیسی تمام خرابیوں کو

اس نے اپنے پاس جمع کر لیا اھل مدینہ و مکہ کے کبار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین نے یزید کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا اس ساری صورتحال نے امت مسلمہ کے اندر اضطراب پیدا کر دیا

اھل کوفہ نے حضرت امام حسین علیہ السلام کو خطوط در خطوط لکھے جن کی وجہ سے آپ اتنے مضطرب ہوئے کہ حج کا ارادہ بھی ترک کر کے عازم سفر ھوئے مضطرب کیوں نہ ہوتے جب دین اسلام کی عظمت و رفعت کو سرے عام نیلام کیا جا رھا تھا

تو علی و فاطمہ کے جگر کا ٹکڑا کیوں کر خاموش رہ سکتا تھا کیا آپ نے یہ نہ سوچا ھو گا کہ کیا میرے نانا نے اھل مکہ سے اسی دن کے لیے سختیاں برداشت کیں تھیں طائف میں اسی لیے پتھر کھائے تھے بدر و احد خندق و حنین کی جنگیں اسی لیے لڑی تھیں کہ جب نشیمن بن جائے تو کوئی آگ لگا دے

آپ نے اللہ کی رضا و خوشنودی اسلام کے احیاء سربلندی اور بقا کے لیے ظالم و جابر حکمران کے سامنے ڈٹ کر حق کا نعرہ بلند کیا آپ نے سر عام اپنا سارا کنبہ قربان کروا دیا لیکن ظلم وجبر باطل کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کیا

بلکہ ملوکیت کے غرور کو چکنا چور کر دیا آپ نے اپنے اوپر ہونے والے ظلم و ستم کو سہہ کر حق و باطل کے درمیان جو حد فاصل کھینچی اور حق گوئی و شہادت کی ایسی عظیم مثال قائم کی کہ وہ رہتی دنیا کے لیے ازادی مساوات اور جمہوریت کی علامت بننے کے ساتھ ساتھ اقامت دین و تحریکات اسلامی کے لیے راہ ہدایت بن گئے

آپ حق کا استعارہ بن گے اور یزید لعین باطل کا امام حسین علیہ السلام نے ہمیں یہ پیغام دے گے کہ اے امت مسلمہ جب کبھی زوال آ جائے تاریکی چھا رہی ھو عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا جا رھا ھو اخلاقی اقدار مٹ رہی ھوں

انسانیت سسک رہی ہو بھلائی دور دور تک نظر نہ آ رہی ہو حق پر باطل غلبہ پا رھا ھو تو تمہیں میری راہ پر چلنا ہو گا تب جا کر حق سرخرو ہو گا اور تمہیں نجات ملے گیا

اگر آج ھم اپنا اور اپنی نسلوں کا مستقبل سنوارنا چاہتے ہیں تو حسینی راہ پر چلنا ھو گا

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں