66

احتجاجی سیاست‘ شہری ذلیل وخوار

دین اسلام کی خوبصورتی یہی ہے کہ دنیابھرمیں انسانیت کے جس قدرحقوق اسلام نے بیان کئے انسان کی عزت وعظمت شان وشوکت کوبیان کیادنیاکاکوئی بھی مذہب ایسے سوچ بھی نہیں سکتا

یہ انسان کاحق ہے کہ اسے اس کے حقوق مانگے بغیرمل جائیں لیکن ہمارے ملک پاکستان میں اسی کوبنیاد بنا کر آئے روزاحتجاج کاسلسلہ شروع کردیاجاتا ہے۔ س

یاسی،سماجی اورمذہبی جماعتیں اپنے اپنے حقوق کی جدوجہدکیلئے آئے روزمیدان سجاتی رہتی ہیں جس کی وجہ سے مین شاہراؤں پرلوگوں کاہجوم دیکھنے کوملتاہے

جس میں لوگ اپنے حقوق مانگنے کیلئے گھروں سے نکل کرمین شاہراؤں کارخ کرتے ہیں جہاں سے ہوتے ہوئے وہ ان مقامات پر ہرقیمت پہنچنا یقینی بنانا چاہتے ہیں جوحکومت کی نظرمیں بہت اہم ہوتے ہیں۔

دنیابھرمیں یہ احتجاج کاطریقہ اور سلسلہ رائج ہے جس سے صاحب اقتداراورحکام بالاکی توجہ اپنی طرف مبذول کرانا مقصود ہوتا ہے اس کے دو پہلوہیں ایک مثبت جبکہ دوسرامنفی‘ مثبت پہلوتویہ ہے

کہ عوام اپنے حقوق کی جدو جہد میں ان لوگوں تک پہنچے جہاں سے ان کواپنے حقوق ملنے کی امیدہو یاجن کے سامنے مطالبات رکھنے مقصودہوں

وہ بھی پُرامن طریقہ سے جس سے عام آدمی متاثرنا ہواورناہی آنے جانے والوں کومشکلات وپریشانی کاسامناکرناپڑے اورناہی راستے بندکرنے پڑھیں

ناہی خریدوفروخت اور ترسیلات کانظام درہم برہم ہولیکن بدقسمتی سے ملک پاکستان میں ہمیشہ سے ہی منفی پہلو ہی دیکھنے میں آتاہے۔ یہاں جب بھی احتجاج کااعلان کیاجاتاہے

توسب سے پہلے عوامی مشکلات میں اضافہ دیکھنے میں آتاہے دنیابھرمیں ہرملک میں پرامن احتجاج ہرشہری کابنیادی حق ہوتاہے جس کاانکارنا توریاست کرتی،ناہی شریعت اورناہی کوئی ملک وقوم لیکن جب وہی پرامن احتجاج کرنے والے لوگ فسادکے راستہ پرچل کرعوامی وریاستی املاک کونقصان پہنچانا شروع کردیں

عوامی مشکلات میں اضافہ کاسبب بن جائیں پرتشدد کارروائیوں کا حصہ بن جائیں، گالم گلوج برے القاب سے مخالف کو پکارنا شروع ہوجائیں،آمدورفت کے راستے بندکردئیے جائیں لوٹ مارکابازارگرم کیاجائے جلاؤ گھیراؤکاراستہ اپنایاجائے تو پھراس صورت میں ناتواسلام اجازت دیتاہے

اورناہی ایسے عناصرکوریاست برداشت کرتی ہے احتجاج کی وجہ سے معاشی ومعاشرتی جو نقصان ہوتاہے اس کاازالہ کرنا ناممکن ہے جیسا کہ راستے بندہونے کی وجہ سے سکول کالج، یونیورسٹی اورمدارس میں پڑھنے والے طلباء وطالبات کا بروقت پہنچنااورپڑھائی کرنامشکل ہوتا ہے ملازمین کا بروقت پہنچناایک چیلنج بن جاتاہے

خوشی غمی میں شریک ہونے والے لوگ ایک جگہ سے دوسری نہیں پہنچ پاتے راستے کی بندش کی وجہ سے تاجرحضرات کواپناکاروبار بندکرکہ گھربیٹھنا پڑتاہے ٹرک کنٹینرز روڈپرپھنس جاتے ہیں

جس سے ٹریفک کانظام بھی درہم برہم ہوتا ہے ہزراوں لوگ فیملی سمیت اس ٹریفک کے ہجوم میں پھنس کرمشکل اورتکلیف دہ وقت گزارتے ہیں

ان لوگوں کو مشکلات کیساتھ ساتھ مالی خسارے سے بھی گزرناپڑتاہے دیہاڑی دارمزدوربھی کام ناہونے کی وجہ سے فاقہ کشی تک پہنچ جاتے ہیں ایمبولینس اورمریض بروقت ہسپتال نہیں پہنچ پاتے

جس کی وجہ سے بہت ساری قیمتی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں زخمیوں کوطبی امداد میسر نہیں ہوتی اشیاء خوردونوش کی ترسیل ایک ضلع سے دوسرے ضلع ایک شہر سے دوسرے شہر تک نہیں پہنچ پاتی جسکی وجہ سے اشیاء خوردونوش کی قلت کابحران سراٹھاتاہے

اسی سبب اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں اوراشیاء بھی مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہوتی بہت سارے تاجرحضرات کاسامان راستے میں رک جانے کے سبب خراب ہوجاتاہے جس سے ان کوکروڑوں کانقصان اٹھاناپڑتاہے

حکومتی انتظامات کیے جاتے ہیں جس پرکروڑوں کے اخراجات آتے ہیں مین شاہراؤں،موٹروے پرٹیکس کانظام متاثرہوتاہے بیرون ممالک سفرکرنے والے مسافر ائیرپورٹ تک نہیں پہنچ پاتے

جس سے انکے ٹکٹ ضائع ہوجاتے ہیں ادویات کی فراہمی بھی اسی طرح متاثرہوتی ہے سرکاری اداروں کے متاثرہونے سے عام آدمی کاکام رک جاتا ہے

اس نازک صورتحال میں ناصرف عوام بلکہ ملک پاکستان کوبھی شدید نقصان سے دوچارہونا پڑتاہے ان سب معاملات سے حالات واقعات سے یہ بات توبلکل واضح ہو جاتی ہے احتجاج کاسلسلہ شروع ہوتے

ہی عام آدمی اذیت میں مبتلاء ہوجاتاہے جبکہ اسلام ہمیں کسی کوتکلیف پہنچانے یاتکلیف دہ چیز راستے میں رکھنے سے منع کرتاہے حدیث مبارکہ میں ہے نبی کریم روف الرحیم ﷺ نے ارشاد فرمایا مسلمان وہ ہے

جس کے ہاتھ اورزبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہے ایک دوسری حدیث شریف میں حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں رسول اکرم شفیع اعظمﷺنے ارشادفرمایاایک آدمی کاگزر ایک (کانٹے دارٹہنی)پرگزرہواجوراستے میں پڑی تھی اس شخص نے کہا اللّہ کی قسم میں ضروراس کو مسلمانوں کے راستے سے ہٹاؤں گاتوتا

کہ کسی کوتکلیف ناپہنچے تواس عمل کی وجہ سے اسے جنت میں داخل کردیاگیاایک حدیث مبارکہ میں توراستہ سے تکلیف دہ چیزہٹانے کوصدقہ جاریہ فرمایاگیااس طرح کی اور بھی احادیث مبارکہ ہیں جن سے ہمیں واضح طورپر راہنمائی ملتی ہے کہ مسلمان کوزیب نہیں دیتا

کہ وہ دوسرے مسلمان کوتکلیف دے خاص کرکہ احتجاج کے نام پراس لئے ہمارے ہاں جواحتجاج،دھرنے کی روایت چل نکلی ہے جس سے ہرشخص متاثرہوتاہے ہرخاص وعام پریشانی سے دوچارہوتاہے اسکی روک تھام ضروری ہے

یاپھراس کاکوئی ایساطریقہ کاروضع ہوناچاہیے جس سے عوام الناس کوتکلیف دہ صورتحال سے ناگزرناپڑے اس سے جتنے بھی وسائل پیدا ہوتے ہیں عوام کوجتنی مشکلات کاسامناکرنا پڑتاہے ان کا سدباب ہونا چاہیے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں