قارئین کرام! بہت کم لوگ اس فانی دنیا میں ایسے پائے جاتے ہیں جنکے دنیا سے جانے کے بعد ہر شخص تعریف کرے، موت کے بعد کسی بھی زندہ شخص کی طرف سے اچھی یا بُری گواہی بڑی اہمیت رکھتی ہے اور وہ گواہی دائمی ہوتی ہے، جیسا کہ احادیث رسول اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ بات عیاں ہے کہ جب کوئی شخص مر جائے تو اسے اچھے الفاظ میں یاد کرو کیونکہ یہ تمہاری طرف سے اس کے حق میں گواہی ہوتی ہے اور اس کا اسے اجر دیا جاتا ہے۔ ندیم فقیر کا تعلق گوجرخان کے نواحی علاقہ حیلیاں سے تھا، برلب جی ٹی روڈ اس کی رہائش تھی، دل کے عارضے میں مبتلا تھا مگر یہ بات صرف چند قریبی احباب کو ہی معلوم تھی کیونکہ اس شخص نے کبھی کسی کو محسوس نہیں ہونے دیا، جس کو دیکھتا بانہیں کھول کر بسم اللہ میرا ویر کہتا تھا، میرے لائق کوئی حکم ڈیوٹی کہتا پایا جاتا تھا، اچھو کوئی خدمت کراں اس کا مشہور جملہ ہے، میرے ساتھ اس شخص کے تعلق کی وجہ منہاج القرآن کا عظیم پلیٹ فارم ہے، راقم نے ”ہے” لکھا ہے ”تھا” نہیں لکھا کیونکہ وہ تعلق اب بھی قائم ہے کیونکہ دل اور روح کے رشتے ہمیشہ قائم رہتے ہیں،
9 مئی کے بعد جب تحریک انصاف پہ کڑا وقت شروع ہوا تو ایک دن ریلوے اسٹیشن کے قریب ملاقات ہوئی تو کہنے لگے کہ ”سچ ایہہ اے نیازی بھائی کہ سب سیاست کوڑ کباڑ اے، سچ اوہ ای جہڑے ڈاکٹر صاحب (طاہرالقادری) آخنڑے” میں نے بھی تائید کی اور پھر دوسرے موجود شخص سے کہنے لگے کہ نیازی بھائی کیساتھ ہمارا تعلق روحانی ہے، ہم بھلے وقتوں کے ساتھی ہیں اور یقینی طور پر ہمیں وہ وقت یاد ہے جب ہم اکٹھے منہاج القرآن کے زیراہتمام اجتماعی اعتکاف بغداد ٹاون لاہور میں جایا کرتے تھے، ندیم فقیر ایک فقیر منش انسان تھا اور اسی لیے اس کے نام کیساتھ فقیر لکھا گیا اور سب لوگ اسے اسی نام کیساتھ جانتے تھے، حالانکہ وہ راجپوت فیملی سے تعلق رکھتا تھا لیکن اس نے راجہ کہلوانے سے بہتر فقیر کہلوانا مناسب سمجھا، اس بات کا انکشاف اس شخص کی رحلت کے دن ہوا کہ ہمارے صحافی دوست راجہ فیصر نے بتایا کہ اس کی عادات اور چال چلن کو دیکھتے ہوئے میں نے اس کا نام فقیر رکھا تھا اور اس نام کو اس نے مستقل طور پہ اپنے حقیقی نام کیساتھ منسلک کر لیا اور جس دن اس شخص کی رحلت ہوئی تو سب نے لکھا ”ندیم فقیر چلا گیا”۔
قارئین کرام! راقم بھی کچھ لکھنے کی کوشش کرتا ہے، مجھے کچھ لوگ اچھا اور کچھ برا سمجھتے ہیں کیونکہ میں سب کی نظر میں برابر اچھا نہیں ہو سکتا اور کل میرے دنیا سے چلے جانے کے بعد کچھ لوگ اچھے اور کچھ برے الفاظ سے بھی یاد کریں گے مگر ندیم فقیر ان چند خوش نصیبوں میں سے تھا جس کو ہر شخص اپنا پرایا اچھا کہتا دیکھا اور پایا گیا، راقم نے ندیم فقیر کو کسی کیخلاف بات کرتے نہیں سنا، اس نے جب بھی بات کی تو کسی کی اچھائی بیان کی، ایک ماہ قبل گلیانہ موڑ میں اچانک ملاقات ہوئی تو بڑے پرتپاک انداز میں ملے اور حسب معمول کہا کہ ”نیازی پہائی اچھو کوئی خدمت کراں تساں نی” میں نے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ میں کام سے جا رہا ہوں اور روانہ ہو گیا، وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ندیم فقیر سے یہ آخری ملاقات ہے۔ اس گزرے بدھ کے دن جب صبح آنکھ کھلی اور فون اٹھایا تو ہر طرف ندیم فقیر تھا آہ ندیم فقیر اللہ کے حوالے۔اس شخص کا جنازہ گواہی دے رہا تھا کہ ایک بخشی ہوئی روح اپنے خالق حقیقی کے پاس چلی گئی ہے، سروں کا اک سمندر تھا اور شاید میں غلط نہ ہوں تو گاؤں حیلیاں کی تاریخ کا بڑا جنازہ تھا، ندیم فقیر سے محبت کرنے والا ہر شخص اشکبار اور غمگین تھا، جو آ نہیں سکتے تھے اور بیرون ممالک تھے انہوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے دکھ اور غم کا اظہار کیا، یقینی طور پر ایسے لوگ جو کسی کیلیے تکلیف کا باعث نہیں بنتے اور ہمیشہ خوشیاں بانٹتے ہیں وہ اسی محبت کے مستحق ہوتے ہیں، رب کریم سے دعا ہے کہ مرحوم ندیم فقیر کی کامل بخشش فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین