بلا عنوان

ملک ظفر اقبال
ہمارے پیارے ملک پاکستان میں سیاست کو کاروبار بنا دیا گیا ہے حالانکہ صحیح معنوں میں کی جانیوالی سیاست عبادت کا درجہ رکھتی ہے پاکستان میں بہت ہی کم تعداد ایسے سیاستدانوں کی ہے

جن پر کسی قسم کی کرپشن، سکینڈل، اقربا پروری،لوٹ مار اور عوام سے ذیاددتی کا الزام نہ آیا ہو اور بہت ہی کم ایسے سیاستدان ہوں گے جنہوں نے اپنے آپ کو عوام کے سامنے بطور چیلنج پیش کیا ہو کہ انھوں نے ہمیشہ صاف ستھری اور کرپشن سے پاک سیاست کی ہے اور عوام کی خدمت کے ساتھ ساتھ وطن عزیز کی بہتری کیلئے کام کیا ہے خاص کر ایسے سیاستدان جو پچھلے 25/30سالوں سے لگا تارسیاست میں نمایاں طور پر رہے ہوں اور حکومت یا اپوزیشن میں ہوتے ہوئے بھی سیاہ و سفید کے مالک رہے ہوں اور جن کے ایک اشارے پر سیاست یا حکومتی مشینری میں کھلبلی مچ جاتی ہو۔بیورو کریسی، اسٹیبلشمنٹ اور حکومتی و انتظامی امورکے ارباب اختیار ان کا حکم ٹالنے کی ہمت نہ رکھتے ہوں ایسے سیاست دان جو چاہیں کریں ہر جاہز و ناجائز کام کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ کروانے میں کوئی دقت یا رکاوٹ نہ ہو اور وہ کرپشن کے ذریعے دنوں میں ارب پتی بلکہ کھرب پتی بن سکتے ہوں اور ملوں،فیکٹریوں،کار خا نوں کی لائنیں لگا سکتے ہوں اور آنیوالی نسلوں کو سنوار سکتے ہوں مگر ایسے حالات و واقعات،اقتدار،اور مختار کل ہونے کے باوجوداگر کوئی بر ملا اپنے آپ کو عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے مخالفین کو کسی بھی چیز کے ثابت کرنے کا چیلنج کر دے تو یہ حیران کن بات ہے اور حمائتیوں کے ساتھ ساتھ مخالف بھی یہ اعتراف کریں کہ اس شخض کا دامن صاف ہے تو پھر اس سے بڑی سچائی اور ثبوت کیا ہو سکتا ہے انسان میں جہاں خوبیاں ہوتی ہیں وہاں برائیاں بھی ہوتی ہیں بعض برائیاں تمام خوبیوں پر چھا جاتی ہیں اور بعض اچھائیاں چھوٹی موٹی برائیوں پر حاوی ہو جاتی ہیں اور سب سے بڑھ کر کہ اتنا با اثر شخص محب وطن،پرہیز گار اور شفافیت کے ساتھ ساتھ صوم و صلواۃ کا پابند نماز،روزہ اور احکامات خداوندی پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ ایک سچا اور پکا مسلمان ہو نابہت ہی کم دیکھنے اور سننے کو ملیں گے جھوٹ نہ بولنا،کسی بھی غلط یا ناجائز کام کی سفارش نہ کرنا،مظلوم کا ساتھ دینا،انصاف پسندی اور میرٹ کو ترجیح دینا اپنے حلقے میں کسی دوسرے با اثر شخص کو مداخلت نہ کرنے دینا،قبضہ گروپ کا راستہ روکنا، بلا تفریق انصاف کی فراہمی کے واضح احکامات ، ان تمام اوصاف کے ساتھ ساتھ سر عام جلسے جلوسوں میں اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کرنا بذات خود ایک بہت بڑا چیلنج ہے کہ جس کے خلاف آج تک کوئی کرپشن کا ثبوت نہ مل سکا ہو ایسے سیاستدان ملک میں کہیں کم ہی نظر آتے ہوں گے ایسے سیاستدانوں پر پاکستان کی عوام اور بالخصوص حلقہ انتخاب کی عوام کو فخر ہونا چاہیے بلکہ ہر میدان اور ضرورت میں ساتھ دینے کے علاوہ ہر قسم کی جانی و مالی مدد بھی کرنی چاہیے۔کیا کسی انسان یا سیاستدان کو جانچنے کا اس کے علاوہ بھی کوئی پیمانہ ہو سکتا ہے یقیناً ناممکن!اس کے علاوہ اسمبلی کے اندر اور باہر ملکی اور عوامی مفاد کیلئے بلا جھجک تنقید،ملکی مفادات کے خلاف اقدامات کی مخالفت،اور حکومتی سطح پر عوامی مفاد کے کام نہ کر سکنے پر کھلم کھلا مخالفت،اقتدار سے علیحدگی اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ ایسا سیاستدان ہی ملک و قوم کا وفادار اور عوام کے ووٹ کا اہل ہو سکتا ہے ۔حال میں ایک مشکل ترین اعلان کہ اگر حکومت مل گئی تو اگر ایک سال تک عوامی مسائل کے حل میں کو خاطر خواہ پیش رفت نہ دکھا سکا تو حکومت سے علیحدہ ہونے کا وعدہ کیا اس سے پہلے بھی کسی نے ایسا کوئی وعدہ کیا یا پھر پورا کیا یقیناً نہیں!شاید ہی ایسا سیاستدان صدیوں پیدا ہو مخالفین شاید اس حقیقیت کو خوشامد کے طور پر جانیں مگر یہ ایک کھلا چیلنج ہے کہ اگر کسی کے پاس کوئی خاص ثبوت ہیں تو وہ برملا پیش کر سکتا ہے۔مخالفت برائے مخالفت کو ترک کرتے ہوئے ایسے لوگوں کا چناؤ کریں کہ جن کا ماضی بے داغ،کرپشن سے پاک اور عوامی خدمت اور ترقی کو ترجیح دیں چونکہ اکثر ووٹر اپنی ووٹ لسانی،برادری ازم،مخالفت،ذاتی مفاد اور ذاتی وابستگی کی بنیاد پر ڈالتے ہیں جو کہ اپنے ساتھ ساتھ قوم و ملک کے عوام کے ساتھ ظلم کے مترادف ہیعموماً دیکھا گیا ہے کہ کسی اچھے ایماندار اور شریف آدمی کو ووٹ اس لیے نہیں ڈالتے کہ وہ ان کی پسند کا نہیں ہوتا اور ان کے ذاتی جائز و ناجائز کام نہیں کرت حالانکہ وہ آدمی عام عوامی بھلائی اور ملک و قوم کا وفادار ہوتا ہے ہمیں اپنی سوچوں کو بدلنا ہوگا اور ذاتی پسند و ناپسند کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک بہتر کردار کو سامنے رکھنا ہوگا اور بہت ہی سوچ سمجھ کر ووٹ ڈالنا ہوگا تا کہ اس امانت میں خیانت نہ ہو اور ہماری آنیوالی نسلوں کا مستقبل بہتر ہو سکے۔{jcomments on}

اپنا تبصرہ بھیجیں