مذاکرات کی پیشکش یا نئے کھیل کا آغاز۔۔۔؟

تحریر:طاہر یاسین طاہر
کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کی جانب سے حکومتِ پاکستان کومذاکرات کی پیشکش معمولی واقعہ نہیں گولی اور فتوے کی زبان میں بات کرنے والی کالعدم تنظیم کے ترجمان کا بیان اپنے اندر کئی جہتیں لیے ہوئے ہے۔

 

ہم یہ سوال متعدد مرتبہ اٹھا چکے ہیں کہ ریاست کی جانب سے کالعدم قرار دی جانے والی تنظیم سے’’امن مذاکرات‘‘ کرنے سے پہلے، کیا ریاست اس تنظیم پر سے پابندی اٹھا لے گی؟اور اگر نہیں تو پھر ان سے امن کی توقع کیسی؟جو اپنی امن دشمن سرگرمیوں کی وجہ سے دہشتگرد قرار پائے۔ معاملہ ایسا سادہ بھی نہیں ہوتا جیسا نظر آ رہا ہوتا ہے۔ ہمیں حقائق کو کھلے دل سے تسلیم کرنا چاہیے،جو طالبان آج ریاست کی چولیں ہِلا رہے ہیں، ہم انھیں کبھی اپنا اثاثہ قرار دیتے رہے۔یہ بحث اپنی جگہ بڑی اہم ہے کہ تربیت یافتہ فوج ہونے کے باوجود ملکوں کو اس طرح کی جنگجویانہ تنظیمیں پالنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ماضی کو جتنا کھنگالا جائے گا طالبان اور ان کے فکری ہمنوا،اسٹیبلشمنٹ اور امریکہ کے نورِ نظر دکھائی دیں گے۔اب مگر پاک فوج کی ڈاکٹرائن تبدیل ہو چکی ہے۔وطن کی سلامتی کو سب سے زیادہ خطرہ انہی دہشتگردوں سے قرار پایا جو مذاکرات کی دعوت دیتے نظر آتے ہیں۔ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کو مذاکرات کی ضرورت کیوں پیش آئی؟کیا انھیں اپنی شکست نظر آ رہی ہے؟ وہ حکومتِ پاکستان کو دباؤ میں لانا چاہتے ہیں؟ یا پھریہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ’’کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا‘‘ کی لاج رکھتے ہوئے حکومت اور دیگر ذمہ دار اداروں کو یہ موقع دے رہے ہیں کہ ہمارے مطالبات کو تسلیم کیا جائے؟ بلاشبہ وہ خود کو فتح مند تصور کرتے ہوں گے۔یہ لمحہء فکریہ ہے۔
کھلی بات مگر یہ ہے کہ ،کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان اور اس کی دیگر فکری ہمنوا تنظیموں نے تو امریکی مداخلت کے نام پر پاکستان میں کشت و خون کا بازار گرم کررکھا ہے۔منظم ہونے اور وقت حاصل کرنے کیلئے مذاکرات،مذاکرات کا کھیل ان کا پرانا وطیرہ ہے،نیا تماشا مگر یہ ہوا کہ ان کی ’’مذاکرات پیشکش‘‘ سے قبل ماحول کو یوں ساز گار بنانے کی کوششیں کی گئیں،کوئی دو ہفتے اُدھر کی بات ہے۔ جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے حکومت اور طالبان کے درمیان ثالثی کی پیشکش کر دی اور کہا کہ اگر حکومت اور قومی سلامتی کے ادارے مکمل اختیار دیں تو وہ طالبان سے بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ مولانا کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے تمام انتظامات کر لیے ہیں اور ہم حکومت اور طالبان کے درمیان مفاہمت کرانے کے لیے تیار ہیں۔ حکومت کی جانب سے کوئی جواب نہ آیا تو مولانا کی ’’بیقراری‘‘کا خیال کرتے ہوئے طالبان نے ’’پہل‘‘ کر دی اور کہا کہ اگر ’’مولانا فضل الرحمن، میاں نواز شریف اور جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن‘‘ ضامن بنیں تو وہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے کو تیار ہیں۔مگر ساتھ ہی یہ شرط بھی بطورِ خاص عائد کر دی کہ حکومت مسلم خان، مولوی عمر اور محمود خان کو رہا کرے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ طالبان اپنے جن’’سیاسی رہنماؤں‘‘ کو رہا کرانے کے لیے مذاکرات چاہتے ہیں، یہ ہیں کون؟ اور کس قدر معصوم ہیں؟ مولوی عمر بیت اللہ محسود کا قریبی ساتھی تھا جو ۱۷ اگست۲۰۰۹ کو بیت اللہ محسود کی موت کے ۱۲ دن بعد افغانستان فرار ہونے کی کوشش کے دوران گرفتار ہو گیا تھا،جبکہ مسلم خان سوات کے ان طالبان کا ترجمان تھا،جو تعلیمی اداروں کو بم دھماکوں سے اڑا کر سوات میں ’’اپنی شریعت‘‘ نافذ کرنا چاہتے تھے۔مسلم خان 11 ستمبر 2009 کو محمود خان سمیت امن مذاکرات ناکام ہونے پر گرفتار ہوا تھا۔ مسلم خان نے پاکستان میں لاتعداد خودکش دھماکوں اور فورسز پر حملوں سمیت دہشتگردی کی متعدد وارداتوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ یاد رہے کہ مسلم خان کے سر کی قیمت ڈیڑھ کروڑ روپے جبکہ محمود خان کے سر کی قیمت پچاس لاکھ مقرر تھی۔
کیا یہ سچ نہیں،کہ جن تین طالبان رہنماؤں کی رہائی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے وہ پاکستانی فورسز سے لڑنے کیلئے بھارتی اور افغان ایجنسیز سے اسلحہ اور فنڈز لینے کا اعتراف کر چکے ہیں؟ان تین طالبان رہنماؤں سے تفتیش پر مبنی جوائنٹ انویسٹی گیشن رپورٹ تیار کی گئی،جس میں انکشاف کیا گیا کہ نہ صرف ان تینوں بلکہ دیگر افراد نے بھی جلال آباد، قندھار اور مزار شریف میں مقیم غیر ملکی آقاؤں کا تنخواہ دار ہونے کا اعتراف کیا۔یہ معلو مات ایک قومی روزنامے میں بھی شائع ہو چکی ہیں۔کیا طالبان کا واضح مقصد اپنے ساتھیوں کی رہائی نہیں؟یہ بات بڑی دلچسپ بھی ہے اور حیرت انگیز بھی کہ طالبان کی طرف سے امن مذاکرات کی پیشکش لکی مروت کے آرمی کیمپ پر اس حملے کے صرف ایک دن بعدکی گئی جس میں ۱۳ فوجی شہید ہو گئے تھے اور کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے کہا تھا کہ یہ حملہ ان کمانڈروں کی موت کا بدلہ لینے کے لیے کیا گیا ہے ،جو جنوری میں امریکی ڈرون حملوں میں ہلاک ہو گئے تھے۔سوال مگر یہ ہے کہ حملہ امریکی ڈرون نے کیا اور طالبان نے نشانہ پاک فوج کے کیمپ کو کیوں بنایا؟اس لیے کہ امریکی منشاء یہی ہے۔
دراصل طالبان یہ چاہتے ہیں کہ انھیں باقاعدہ ریاستی طاقت تسلیم کر لیا جائے اور اہم قومی امور میں ان کی مشاورت کو یقینی بنایا جائے۔ان کے بعض ہمدرد تو انھیں یہ مشورہ بھی دیتے رہے کہ وہ ہتھیار پھینک کر بات چیت کا راستہ اختیار کریں۔انتخابات بہت قریب ہیں،مذاکرات کی اس مشروط پیشکش کو، کے پی کے،کے وزیرِ اطلاعات میاں افتخار حسین کے اس بیان کے ساتھ دیکھنا چاہیے جو انھوں نے کچھ عرصہ پہلے دیا تھاکہ’’دہشتگرد اپنے حمایتی پارلیمنٹ میں بھجوانا چاہتے ہیں‘‘کیا جن ضامنوں کا طالبان نے ذکر کیا وہ ان کے کھلے بندوں حمایتی نہیں؟ کیا یہ اس جنگ کو،جس میں پاکستان کے معصوم شہری اور پاک فورسز کے جوان شہید ہو رہے ہیں،اسے غیر ملکی جنگ نہیں کہتے؟مذاکرات کی تازہ پیشکش ایک جھانسہ ہے ۔عسکری قیادت اور وفاقی حکومت اس طالبانی جھانسے میں نہیں آئے گی۔ بات بالکل واضح ہے،امریکہ ڈرونز حملوں کو امریکی سلامتی کا ضامن قرار دے رہا ہے،جبکہ طالبان ہر تازہ اور بڑی کارروائی کو امریکی مداخلت اور ڈرون حملوں کا ردعمل قرار دیتے ہیں۔حیرت ہے،کالعدم دہشتگرد تنظیم،جس نے باقاعدہ تحریک کی شکل اختیار کر لی ہے،اپنی شرائط پر مذاکرات چاہتی ہے۔کیا طالبان اپنے غیر ملکی آقاؤں کی حکمتِ عملی سے مسلم خان،مولوی عمر اور محمود خان کو رہا کر وا کر خطے میں کسی بڑے کھیل کی بنیاد کا آغاز چاہتے ہیں؟{jcomments on}

اپنا تبصرہ بھیجیں