متاثرین

ہمارے ملک میں مسائل کی تاریخ جتنی پرانی ہے وہاں مختلف شعبہ جات کے متاثرین کی تاریخ بھی بہت پرانی ہے پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے ساتھ ہی لاکھوں مسلمانوں کو اپنے گھر بار لٹا کر ہجرت کرنا پڑی اور اس تاریخی ہجرت کر کے آنے والوں کے لیے وسیع پیمانے پر متاثرین کے کیمپ قائم کئے گئے اور ان کے متاثرین کی آباد کاری کے لیے ہر ممکن اقدامات کئے گئے توانائی کے حصول کی خاطر اور بجلی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے سب سے بڑے منصوبہ کا آغاز منگلا ڈیم کی صورت میں کیا گیا اور اس کے متاثرین کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے

قیمتی زمینیں ان کی زد میں آئیں کئی گاؤں نقل مکانی کی نذر ہوئے اور اب اس کی اپ ریزنگ کی گئی تو بھی کئی گاؤں اس سے متاثر ہوئے بے شک ان متاثرین کو ادائیگیاں کی گئیں مگریہ ان متاثرین کے دکھوں کا مداوا ہر گز نہیں تربیلا ڈیم کی تعمیر گئی تو متاثرین کو نئے شہر آباد کرنا پڑے اس طرح غازی بروتھا پاور پراجیکٹ کے لئے نہ صرف قیمتی زمینوں سے ہاتھ دھو کر متاثرین نے قربانیاں دیں بلکہ نقل مکانی جیسے کرب سے بھی گزرنا پڑا اس طرح جب بھی کسی نئی سڑک کی تعمیر کی گئی یا اس کی توسیع کرنا پڑی تو بھی متاثرین کو زک ضرور پہنچی تاریخی منصوبے موٹر وے کی تعمیر سے سے بھی لوگ بہت زیادہ متاثر ہوئے اور آج بھی یہ موٹروے کئی گاؤں کے لیے انٹرنیشنل بارڈر کی طرح ہے جسے عبور ہر گز نہیں کیا جا سکتا راول ڈیم، خان پور ڈیم، سانمبلی ڈیم، ان سب کے لیے خطہ پوٹھوہار کے باسیوں نے ہی قربانیاں دیں تب جا کر اسلام آباد کو بین ا لاقوامی شہرت ملی اور اس کی شان و شوکت میں اضافہ ہوا صوبائی حکومتوں نے ان قومی اہمیت کے حامل منصوبہ جات کے لیے زمین کے حصول کے قوانین بنا رکھے ہیں جنہیں ایکوز لیشن ایکٹ کے ذریعے نافذ کیا گیا ہے اور اس کے لیے با قا عدہ افسران بھی تعینات کر رکھے ہیں حال ہی میں تحصیل کلر سیداں کے لیے روات تا کلر سیداں دوریہ سڑک کی تعمیر شروع کی گئی جس کے لیے جگہ کم ہونے کی وجہ سے حکومت پنجاب کو بہت سی زمینیں ایکوائر کرنا پڑیں ،کمرشل بازار کی بیش بہا قیمت کی مالک کی دکانوں کو بھی ایکوائر کیا گیا اور یہ قربانی بھی خطہ پوٹھوہار کے چند لوگوں کو مقدر بنی خصوصاً چوک پنڈوڑی بازار کی دکانوں سے لے کر مہیرہ سنگال تک کی قیمتی اراضی کو یہاں کے باسیوں نے اس سڑک پر قربان کیا بھرے پڑے بازار کو ویرانے میں تبدیل کرنے کے لئے تاریخ بھی دی جا چکی ہے اور اس کے متاثرین نے اپنی آواز حکام بالا تک پہنچانے کے لیے انگڑائی بھی لینا شروع کر دی ہے چوک پنڈوڑی بازار کے تاجر اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں مالکان تو اپنی ملکیت کے عوض کچھ نہ کچھ وصول کر لیں گے مگر لگے لگائے کاروبار کے اجڑ جانے سے جو لوگ متاثر ہوں گے ان کا مداوا کون کرے گا ان تاجروں سے وابستہ کئی خاندانوں کے چولہے بھی ٹھنڈے ہو جائیں گے اور نئی جگہ کاروبار کو شروع کرنے کے لیے وقت اور دولت دونوں کا ضیاع ہوگا اس نقصان کو کون پورا کرے گا اس روڈ پر کچھ سال قبل مانکیالہ کے مقام پر ریلوے لائن کے اوپر اوور ہیڈ برج کی تعمیر کی گئی اس وقت کی سیاسی قیادت نے متاثر ہونے والے مالکان کے علاوہ وہاں کاروبار کرنے والے تاجروں کو بھی معاوضے دئیے تھے اب بھی اس تاریخ کو دہرایا جا سکتا ہے چوک پنڈوڑی کے متاثر ہونے والے تاجروں کو معاوضے کی ادائیگی کر کے ان کے زخموں پر مرہم رکھا جا سکتا ہے مگر یہ سب کون کرے گا تاجر تنظیمیں دم سادھے بیٹھی ہوئی ہیں قیادت عضوِ موطل بنی ہوئی ہے ان متاثرین کے لیے کوئی تو میدان میں آئے ایک مثال قائم کرے متاثرین کو جگہ کے بدلے جگہ بھی الاٹ کی جاسکتی ہے مگر اس کے لیے کوئی صدا بلند کرنے والا تو ہو۔

اپنا تبصرہ بھیجیں