راجہ انور راولپنڈی کی تحصیل کلرسیداں کے نواحی علاقہ درکالی شیرشاہی میں 1948ء میں پیدا ہوئے انہوں نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول کلرسیداں سے حاصل کی بعدازاں گولڈن کالج راولپنڈی میں داخلہ لیا وہاں سے آپ نے ایک طالب علم لیڈر کی حثیت سے اپنا نام پیدا کیا1966سے 1968ء تک کالج کی سٹوڈنٹ یونین کے سیکرٹری اور صدر کے عہدہ کے لیے منتخب رہے۔ 7نومبر1968ء کی صبح جنرل ایوب خان کے خلاف طلباء کا پہلا جلوس انہی کی قیادت اور صدارت میں گورڈن کالج، راولپنڈی سے برآمد ہوا جو بعد ازاں ایک عظیم قومی اُبھار میں ڈھل گیا۔ اسی تحریک کے نتیجے میں مارچ 1969ء میں ایوب خان کو مستعفی ہونا پڑا۔ راجہ انور اس دوران بارہا پولیس کے جبرو تشدد کا نشانہ بھی بنے اور قید بھی ہوئے۔ 1970ء میں پاکستان کے دوسرے فوجی حکمران جنرل یحییٰ خان نے انہیں مارشل لاء پر تنقید کرنے کے جرم میں ایک سال قید با مشقت کی سزا سنائی۔ انہوں نے یہ سزا بہاولپور جیل میں کاٹی۔ اُن کی پہلی کتاب ’’بڑی جیل سے چھوٹی جیل تک‘‘ اسی دور کی داستان ہے۔ انہوں نے 1972ء میں پنجاب یونیورسٹی سے فلسفے میں ماسٹرز کی ڈگری اعزاز کے ساتھ حاصل کی۔ اُن کا ریسرچ مقالہ ’’مارکسی اخلاقیات‘‘ کے عنوان سے کتابی شکل میں شائع ہوا۔ اُن کی مشہور کتاب ’’جھوٹے روپ کے درشن‘‘ پنجاب یونیورسٹی کے مہکتے دبستان میں محبت کی آنچ پر پگھلتے جذبات کی حقیقی روداد ہے۔
1973-77ء وہ وزیراعظم بھٹو کے مشیر برائے طلباء رہے۔ 1978 ء میں اُن کی کتاب ’’ہمالہ کے اُس پار‘‘ شائع ہوئی۔ 1979ء میں جلا وطن ہوئے۔ 1980-83ء وہ کابل جیل میں قید رہے۔ بلکہ میڈیا میں اُن کے مارے جانے کی خبر بھی نشر ہو گئی۔ اسی قید کے دوران انہوں نے ’’Tragedy of Afghanistan‘‘ نامی کتاب لکھی جو برطانیہ اور امریکہ سمیت دنیا کے چھ ممالک سے شائع ہوئی۔ 1996ء میں ان کی کتاب ’’Terrorist Prince‘‘ شائع ہوئی۔ وہ 1996ء سے 2007ء تک ’بازگشت‘ کے عنوان سے باقاعدگی سے کالم لکھتے رہے۔ ’’قبر کی آغوش ‘‘ اُن کی نئی کتاب ہے جو کابل کے بدنام زمانہ زنداں پُلِ چرخی میں بیتے درد انگیز لمحات کی لمحہ بہ لمحہ کہانی ہے۔راجہ انورآج کل پنجاب ایجوکشن ٹاسک فورس کے چئیرمین ہیں اور پنجاب بھر میں تعلیمی حوالے سے اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔{jcomments on}
392