684

قلعہ روہتاس

تحریر:راجہ طاہر نمائندہ پنڈی پوسٹ

قلعہ روہتاس اسلام آباد سے  ایک سو نو کلو میٹر کے فاصلہ  پرضلع جہلم کے قصبہ دینہ کے قریب  واقع ہے اسے دہلی کے حکمران شیر شاہ سوری نے مقامی گکھڑ قبائل سے محفوظ رہنے کے لیے ایک فوجی اڈے کے طور پر پندرہ سو چالیس اور پندرہ سو پینتالیس کے درمیان تعمیرکروایا۔


قلعہ روہتاس شیر شاہ سوری (اصل نام فرید خان) کے بیٹے حسن خان، ابراہیم خان اور لودھی قبیلے کے احکامات کے بعدتعمیر کیا گیا تھا.
قلعہ روہتاس مکمل کرنے کے لئے تقریبا دس سال لگے اور آٹھ کروڑ روپے اور بعض رویات کے مطابق سولہ کروڑ روپے، اور دس لاکھ روپے خرچ ہوئے ان کا حوالہ گیٹ پر لگی ایک پرانی تحتی سے بھی ہوتا ہے۔

مختلف ادوار میں یہ قلعہ بہت سے مسلمان حکمرانوں کے قبضے میں رہا جن میں ہمایوں پندرہ سو تیس سے پندرہ سو چالیس، ظہیر الدین محمد بابر پندرہ سو چھبیس سے پندرہ سو تیس وغیرہ اہم ہیں

قلعہ کی ساخت اور مقامات

قلعہ ایک ایسی جگہ پر واقع ہے جو دفاعی نقطہ نظر سے بہت ہی محفوظ ہے اس کا کل رقبہ تقریبا پانچ مربع میل ہے اور یہ سطح سمندر سے چھبیس سو ساٹھ فٹ کی بلندی پر واقع ہے دیواروں کی انچائی دس سے اٹھارہ میٹر تک ہے دیواریں زیادہ تر اینٹوں اور چونے سے تعمیر کی گئی ہیں جس میں اڑسٹھ ٹاورز ہیں جو دشمن پر نظر رکھنے کے لیے اس دور میں تعمیر کیے جاتے تھے اس کے علاوہ بارہ دروازے ہیں جن میں سے 4دروازے ڈبل ہیں بہت سے کمرے ہیں اس کا پانی کا کنواں منفرد حثیت کا حامل ہے جس کے پانی تک پہنچنے کے لیے سیڑیاں بنائی گئی ہیں اس کے علاوہ رانی محل حویلی مان سنگھ اور شاہی مسجد بھی سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہوتی ہیں قلعے میں داخل ہوتے ہی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسان اس زمانے میں اگیا ہے جس میں یہ قلعہ تعمیر ہوا تھا قلعے کی تعمیر میں زیادہ تر خطاطی عربی اور فارسی میں کی گئی ہے یہ قلعہ مکمل طور پر مسلم فن تعمیر کا نمونہ ہے جو ہمیں مسلمانوں کے عظیم فاتح ہونے اور عظیم معمار ہو نے کا ثبوت دیتا ہے۔

موجودہ حالت اور عظیم سیاحتی مرکز

اب قلعہ کو اقوام متحدہ کی جانب سے ایک عظیم ورثہ قرار دیا جا چکا ہے اور حکومت پاکستان اس کی تعمیر و ترقی پر خصوصی توجہ دے رہی تاکہ اس عظیم ورثے کوآنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کیا جا سکے اس سلسلے میں قلعہ میں ایک وسیع و عریض میوزیم تعمیر کیا جا رہا ہے اور سیاحوں کی سہولت کے لیے معلومات سینٹر قائم کیے جا رہے ہیں تاکہ اس عظیم وارثے سے متعلق زیادہ سے زیادہ معلومات عام کی جا سکیں{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں