’’پگ‘‘پنجاب میں مرد کی شان اور آن باور کی جاتی ہے ،’’پگ ‘‘ کو استعمال سے قبل مایا لگائی جاتی ہے اور ابرق کا دھوڑا دے کر اسے رنگ میں ڈبویا جاتا ہے اور پھر’’ٹس ‘‘ نکالی جاتی ہے ۔’’پگ‘‘ کی کئی اقسام ہیں جن میں جٹکی، گھٹویں، گنڈی، لنڈی، چیرا، سہاگ، لڑوں والی، دو طری، ڈنگی، گول، پدھری وغیرہ معروف ہیں لیکن ہم جس ’’پگ‘‘کا ذکر کرنے جارہے ہیں وہ ہے سیاسی ’’پگ‘‘
NA52سے قبل اس حلقہ کو این اے 39کے لقب سے ملقب کیا جاتاتھااور اس حلقہ انتخاب کی سیاسی پگ مختلف ادوار میں مختلف سروں پر بندھی نظر آتی ہے۔ جن سروں پر یہ پگ سجی ان میں چودھری جہانگیر علی پاکستان پیپلزپارٹی ،نذر حسین کیانی پاکستان پیپلز پارٹی، راجہ شاہد ظفر پاکستان پیپلز پارٹی، محمد اعجاز الحق،کپٹن صفدر اور چودھری نثارعلی خان شامل ہیں۔ 1988میں پاکستان پیپلزپارٹی کے راجہ شاہد ظفر نے 60701 ووٹ لے کر یہ سیاسی پگ دوبارہ باندھی۔ ان کے مدمقابل آئی جے آئی کے راجہ محمد بشارت 44719ووٹ لے سکے تھے۔سید ریاض حسین شاہ بھی اس وقت میدان میں موجودہ تھے اور نبی ؐ کے جھنڈے کو اونچاکرنے کے نعرے پر ان کو 38996 ووٹ ملے تھے۔سیاسی حلقوں کا کہناہے کہ راجہ بشارت کو ہرانے کے لئے سید ریاض حسین شاہ نے کلیدی کردار اداکیاتھا۔
1990کے الیکشن ہوئے تو مردمومن مردحق کی ’’شہادت‘‘ کا غم تازہ تھا ،اس لئے یہاں سے آئی جے آئی کے محمداعجازالحق نے87829ووٹ لے کر اس حلقہ کی سیاسی پگ پاکستان پیپلزپارٹی سے چھین لی اور’’ٹس‘‘نکال کرمتواتر تین الیکشن تک قومی اسمبلی میں موج کرتے رہے،لیکن حلقہ کی محرومیوں کا ازالہ کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ان کے مدمقابل پی ڈی اے کے راجہ شاہد ظفر کے حصے میں 57130 ووٹ آئے تھے۔نعرہ تو سال 1988 والاہی تھا لیکن اس حلقہ کے لوگوں نے اب کی بارسید ریاض حسین شاہ کو صرف 3582ووٹ دیئے ۔ 1993میں پاکستان پیپلزپارٹی کے راجہ شاہدظفر نے اپنا چھیناہوا اعزاز دوبارہ حاصل کرنے کی سرتوڑ کوشش کی لیکن ناکام ہوئے اور 64655ووٹ لینے کے باوجود اعجاز الحق سے اپنی چھینی گئی پگ حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے اعجازالحق نے ان انتخابات میں 87676ووٹ لے کامیابی حاصل کی۔ 1990 اور1993میں اعجاز الحق کی ووٹوں میں صرف 153ووٹوں کی کمی ہوئی جب کہ پیپلزپارٹی 7525ووٹ زیادہ حاصل کرنے کے باوجود ناکام رہی۔
1997میں ایک بار پھر مردمومن مردحق کا سکہ ہی چلا اورمسلم لیگ (ن) کے اعجاز الحق 87392 ووٹ لے کرایک بار پھر’’ٹس‘‘ نکالنے میں کامیاب ہوگئے ۔پیپلزپارٹی کے راجہ شاہد ظفر نے جب اپنی 31838ووٹوں کو دیکھا تو ہمیشہ کے لئے اس پگ کو باندھنے سے تائب ہوکر گوشہ نشین ہوگئے۔پی ٹی آئی کی جانب سے اس الیکشن میں چودھری زمرد حسین ایڈووکیٹ (مرحوم ) بھی قسمت آزمائی کر رہے تھے اور انھوں نے 5174ووٹ حاصل کئے تھے۔ اس بار مسلم لیگ(ن) کے ووٹ گزشتہ الیکشن سے صرف284کم ہوئے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی 32817ووٹ گم کربیٹھی۔
2002میں جب یہ حلقہ این اے 52کے عنوان سے معنون ہوا تو مسلم لیگ (ن) کے چودھری نثار علی خان نے 73671ووٹ لے کر یہ سیاسی پگ اپنے سر سجالی،ان کے مدمقابل مسلم لیگ(ق) کے محمد ناصر راجہ 56645ووٹ لے کر دوسر ے نمبر پر رہے جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین کے صغیر کھوکھر صرف11684ووٹ حاصل کرسکے۔پانچ سالہ مشرف کادور مسلم لیگ(ق) کے لئے سنہرا دور تھا۔ اس میں علاقہ بھر میں کثیرترقیاتی کام کروائے گئے۔ نئے ضلعی نظام کے تحت بننے والے اکثر ناظمین، نائب ناظمین اور کونسلرز (ق) کی چھتری کے نیچے سستانے لگے اور یہ خبریں گردش کرنے لگیں کہ مشرف کی زیر قیادت وسیادت ہونے والے 2008کے انتخابات میں مسلم لیگ(ق) این اے 52کی سیاسی پگ اپنے نام کرانے میں کامیاب ہوجائے گی۔
2008کے انتخابات میں اس حلقہ کے انتخابی نتائج نے سب کو حیران کرکے رکھ دیا۔مشرف کی شدید خواہش کے باوجوداور ناظمین ،نائب ناظمین، کونسلرز کی کثیرفوج کی مخالفت کے برعکس عوام نے مسلم لیگ(ن) کے چودھری نثار علی خان کو 97747 ووٹوں کے ساتھ بھاری سیاسی پگ سے نوازا۔ مسلم لیگ(ق) کے محمدناصر راجہ تمام تر ترقیاتی کام کروانے کے باوجودگزشتہ الیکشن میں حاصل کی ہوئی ووٹوں سے بھی کم (54988) ووٹ حاصل کر سکے۔اس ناکامی کی بڑی وجہ لوگوں کی مشرف سے نفرت تھی جوکہ رنگ لائی ۔اس کے بعد ضمنی الیکشن میں بھی یہاں کپٹن صفدر کو بھاری اکثریت سے کامیابی ملی ،لیکن چودھری نثارعلی خان نے اپنے وعدے کے مطابق اس حلقہ میں اربوں کے ترقیاتی کام کروا کر اپنے قدم یہاں مذید مضبوط کرلئے۔ عام الیکشن کی آمد آمد ہے ،این اے 52کے لئے پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ(ق) کی جانب سے محمدبشارت راجہ ایک بار پھر یہاں کی سیاسی پگ کو حاصل کرنے کیلئے آرہے ہیں، لیکن کیاوہ یہ پگ اپنے سر باندھنے کی خواہش کو پایہ تکمیل تک پہنچا پائیں گے؟یہی سوال پورے حلقے میں گردش کررہاہے ۔قبل ازیں حاجی نوازکھوکھر بارے معلوم ہواتھا کہ وہ یہاں دو دو ہاتھ کرنا چاہتے ہیں لیکن جلد ہی وہ منظر سے پرے ہٹ گئے اور ابھی تک خم ٹھوک کر کوئی بھی چودھری نثار علی خان کے مقابل نہیں آیاہے ۔راجہ محمدبشارت نے بھی ابھی تک اپنے امیدوارہونے کا باضابطہ اعلان نہیں کیا اور نہ ہی اپنی انتخابی مہم شروع کی ہے تاہم ان کی جانب سے چند دیہات کے لئے سوئی گیس کا اعلان ان کی جانب سے حرف آغاز کے طورپر لیا جا رہا ہے۔ چودھری نثارعلی خان ابھی تک اس پگ کو اپنے سر پر سجائے ہوئے ہیں اور بقول ان کے انھوں نے یہ پگ داغ دار نہیں ہونے دی۔
اب پھر الیکشن کمیشن اس پگ کو مایا لگارہاہے اورنئی ووٹر لسٹوں کی ابرق کا دھوڑا دے کر ’’چوکھا‘‘رنگ چڑھانے کے لئے ضابطہ الیکشن کے رنگ میں ڈبویا جارہاہے لیکن اس پگ سے کامیابی کی ’’ٹس ‘‘ کون نکالتاہے اس کے لئے الیکشن کے دن کا انتظاررہے گا۔ حلقہ پی پی 5 سے انجینئرقمرالاسلام راجہ پاکستان مسلم لیگ(ن) کے امیدوار ہوں گے ،محمود شوکت بھٹی اور چودھری جنید کی خواہش تھی کہ اس حلقہ کی سیاسی پگ ان کے حصے میں آئے لیکن چودھری نثار علی خان نے دوٹوک الفاظ میں کہہ دیاہے کہ میٹنگ اور خطوط سیاست کا حصہ ہیں لیکن جو بات ایک بار کہہ دی جائے اس پرپہرادینا میراوتیرہ ہے اور ان میٹنگ اور خطوط میں سرفہرست لوگوں کو ایسا کرتے ہوئے میرے کہے ہوئے الفاظ کو ذہن میں رکھنا چاہئے تھا۔دوسری جانب پاکستان پیپلزپارٹی سے اس حلقہ کے لئے ٹکٹ کے خواہش مند بیرسٹر ظفر اقبال چودھری دوہری شہریت کی تلوار سے خوف زدہ ہوکر عازم برطانیہ ہوچکے ہیں۔تحریک انصاف حسنِ پارٹی انتخابات سے نمٹ لے تو عام انتخابات کے لئے پارٹی امیدوار تک پہنچے۔پاکستان مسلم لیگ (ق) کی جانب سے حافظ سہیل اشرف ملک یقینی طور پر لنگوٹ کس چکے ہیں لیکن اگر ایک اہم شخصیت پی پی یا (ق) میں شامل ہوگئی تو پھر وہ اس میدان میں شامل ہوجائے گی۔{jcomments on}