248

لمحہ فکریہ

آصف محمود شاہ
پیارے پاکستان کو معرض وجود میں آئے تقریباً 66 برس ہوا چاہتے ہیں لیکن اتنے برس گزر جانے کے بعد ابھی تک ہم یہ فیصلہ نہیں کر سکے کہ ہمارا تعلیمی نظام کیسا ہونا چاہیے۔

ہمارے حکمران بھی میوزیکل چیئر گیم کھیل رہے ہیں انکی اولادیں ملک سے باہر اعلی تعلیم حاصل کرتی ہیں اور افسوس صدافسوس انہیں قومی زبان اردو تک نہیں آتی اور ہمارے وزرا ء اردو زبان کے بجائے انگریزی میں حلف اٹھانا پسند کرتے ہیں۔ ہماری نظام تعلیم 2حصوں پر مشتمل ہے ایک نظام جوانتہائی مہنگااور امیر لوگو ں کے بچوں کیلئے ہے

جہاں پر عام پاکستانی شہری کے بچوں کاپڑھنا تو درکنار داخل کروانے کا سوچ نہیں سکتا اور دوسرا تعلیمی نظام وہ ہے جس سے ہمارے بچے مستفید ہورہے ہیں جب تک ملک کا تعلیمی نظام یکساں نہیں ہوگا ملک کی ترقی ایک خواب ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام چاہے وہ نجی اسکول ہوں یاسرکاری ان میں ایک مدد مشترک ہے وہ ہے جسمانی تشدد کی تعلیمی ادارے جہا ں بچوں کو ایک مکمل انسان بنانے کیلئے سمجھا جاتا ہے

وہ انکو گالیا ں دیں ۔انکے ہاتھوں اور کمر میں ڈنڈے برسانا ۔مرغا بنانا اور دھوپ میں کھڑا کرنا ایک عام سی بات اور روزمر ہ کی سزائیں ہیں۔اسی وجہ سے تقریباً 35فیصد بچے پرائمری ہی سے سکول سے بھاگ جاتے ہیں نجی سکول جنہوں نے تعلیمی نظام کو کسی حد تک سہارا دیا ہوا ہے ان میں بعض سکولوں کا تعلیمی معیارنہ ہونے کے مترادف ہے۔ بعض سکول تو پورا سال مختلف قسم کے فنڈز اور کٹوتیاں کے نام پر مال بنانے کے چکر میں رہتے ہیں

اور غریب والدین بچوں کو بڑھانے اور ایک اچھا شہری بنانے کے چکر میں ان کی یہ ڈیمانڈ پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں لوگوں نے تعلیم کو ایک پیشہ بنا لیا ہے ہر گلی ہر محلے کے کونے میں ہمارے مستقبل کے معماروں کو تعمیر کرنے کی فیکٹریاں لگی ہوئی ہیں۔ اس سے بڑی شرم کی کیا بات ہوسکتی ہے کہ حال ہی میں ایک ایک عالمی ادارے نے ایک NGO کے ساتھ ملکر ایشیاء کے 14 پست ترین ممالک کی تعلیمی پالیسیوں کا موازنہ کیا گیا تو ہمارا نمبر اس میں آخری ہے

ہمارے حکمران کبھی بھی تعلیم کیلئے سنجیدہ نہیں ہوئے اب حال ہی میں پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کے کچھ اسلام دشمن اور نا عاقبت لوگوں نے دسویں جماعت کے سلیبس میں حضرت عمرؓ کے اسلامی نظریے اور علامہ اقبال کی کچھ نظمیں خذف کردیں جب اس طرح ملک دشمن اور تعلیم دشمن عناصر ہمارے تعلیمی نظام میں شامل ہونگے تو تعلیمی ترقی ایک خواب رہے گا۔ ہمارے لیڈران جو کہ ہمارے لیے قانون بناتے ہیں

اور ملکی تعلیمی نظام بناتے ہیں ان میں 54% کی اپنی ڈگریاں جعلی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے اوپر رحم کرے۔ ہمیں ضرورت ہے ایک ایسی پڑھی لکھی حکومت کی جو کہ مہنگائی بنیادوں پر تعلیمی پالیسی پر مکمل توجہ دے جو کہ تعلیمی نظام کو ایک مربوط سسٹم سے جوڑے اور ایسی بدروحیں اور تعلیم دشمن عناصر سے جان چھڑائے جن کو اسلامی نظریات اور پاکستان کو قائم دائم کرنیوالے لیڈروں کے نام سے چڑ ہے۔ ایسی صاف ستھری قیادت ہمارا مقدر بنے جو کہ ملک کے دوسرے مسائل کیساتھ ایسا تعلیمی نظام دے جو کہ ایک روشن پاکستان کی ضمانت ہو۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں