پرامن انتقال اقتدار کے تقاضے پورے کئے جائیں

پاکستان میں پہلی بار ایک جمہوری حکومت اپنی آئینی مدت پوری کر رہی ہے، اس سے پہلے1977 میں پیپلز پارٹی کی ہی حکومت اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے قبل از وقت اسمبلیاں تحلیل کر کے عام انتخابات کا اعلان کر دیا تھا۔

لیکن حکومت کی طرف سے دھاندلی اور اپوزیشن کی احتجاجی تحریک نے نئے انتخابات منعقد ہونے کی نوبت ہی نہ آنے دی اور ایک مارشل لاء نے آئندہ گیارہ سال کیلئے ملک پر سائے پھیلائے رکھے۔ اب بھی حکومت ڈاکٹر طاہر القادری کے احتجاجی دھرنے کے نتیجے میں کئے گئے ایک معاہدے کے تحت قبل از وقت اسمبلیاں توڑنے کا فیصلہ کر چکی ہے مگر ابھی تک شاید ہماری قوم اور سیاسی قیادت پر امن انتقال اقتدار کے تجربے کیلئے تیار نہیں۔ اسی وجہ سے ابھی تک ایک ہیجان خیز غیر یقینی کی کیفیت طاری ہے۔ حکومت نے جس طرح اپنی مدت پوری کی ہے یہ پوری قوم کیلئے ایک بھیانک خواب کی طرح ہے۔ بد انتظامی اور کرپشن کے تاریخ ساز ’’ کارنامے‘‘ سر انجام دینے والی اتحادی حکومت اس وقت بھی نہ صرف حکومتی ذرائع اور وسائل سے انتخابی مہم چلا رہی ہے ، اربوں روپے کے فنڈز تقسیم کر رہی ہے بلکہ انتظامی تعینات بھی کر رہی ہے اس صورتحال پر اپوزیشن احتجاج کرنے کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن کو زیادہ اختیارات دینے کا مطالبہ بھی کر رہی ہے، ایک طرف یہ صورتحال ہے تو دوسری طرف نگران حکومتوں کیلئے متفقہ اور غیر جانبدار شخصیات کی نامزدگی پر بھی ایک غیر یقینی کی کیفیت طاری ہے۔ آئین کی اٹھارویں ترمیم کے تحت نگران وزیر اعظم کی نامزدگی کیلئے قائد ایوان( وزیر اعظم) اور قائد حزب اختلاف کے درمیان مشاورت ضروری ہے۔ اگر یہ دونوں کسی نام پر متفق نہ ہوں تو پھر معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس جانا ہے مگر ابھی تک حکومتی اتحاد اور اپوزیشن جماعتوں نے اس معاملے میں باقاعدہ مشاورت بھی شروع نہیں کی۔ تاکہ اس وسیع تر مشاورت کے بعد سامنے آنے والے ناموں پر وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر مشاورت کریں۔ اس کے باوجود کوئی درجن بھر شخصیات کے نام گردش کر رہے ہیں۔ آئندہ آنے والے عام انتخابات کو نتیجہ خیز بنانے اور قرضہ چور ، ٹیکس چور، جعل ساز اور ناپسندیدہ اعمال میں ملوث امیدواروں کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکنے کیلئے آئین کی دفعات 62,63 پر مکمل عملدرآمد کیلئے پہلا لانگ مارچ اور دھرنا ڈاکٹر طاہر القادری نے دیا۔ پانچ دن کی اس مہم جوئی کے نتیجے میں حکومت اس بات پر راضی ہو گئی ہے مگر ان ہی مطالبات کی حمایت کرنیوالی اپوزیشن جماعتیں ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنے میں شامل ہونے سے گریزاں رہیں اور اب بھی حکومت کے ساتھ ان کے معاہدے کو غیر قانونی قرار دے رہی ہیں اس کے ساتھ ہی ان مطالبات کیلئے الگ الگ دھرنا دینے کا اعلان بھی کر رہی ہیں۔ یہ صورتحال اب پیدا نہیں ہوئی بلکہ 5 سال کے دوران اپوزیشن متحد نہیں ہو سکی۔ اس کا فائدہ حکومت نے خوب اٹھایا اور کرپشن ، بد انتظامی کے ریکارڈ قائم کئے۔ اب جبکہ انتخابات سر پر ہیں اور اپوزیشن پھر منتشر ہے اور یقیناً اس کا فائدہ حکمران اتحاد اٹھائے گا ، پوری قوم جس عذاب سے گزر رہی ہے اس کا احساس سیاسی قیادت کو اب بھی نہیں ہے، ذاتی انا اور سیاسی مفادات کے لئے نہ تو متحد ہو رہے ہیں اور نہ ہی شفاف انتخابات کیلئے راہ ہموار کر رہے ہیں۔ یہی کیفیت رہی تو پھر کوئی نا مطلوب تیسری قوت اقتدار پر قابض ہو جائے گی ، شاید پیپلز پارٹی یہی چاہتی ہو کیونکہ اپنی ’’ کارکردگی‘‘ کو دیکھتے ہوئے اسے کسی کامیابی کی توقع نہیں ہے اور پارٹی قیادت چاہتی ہے کہ عوام کے پاس جانے سے پہلے چند سال کوئی’’ غیر جمہوری حکومت‘‘ آ جائے تاکہ وہ سیاسی شہادت کا نیا تمغہ لے کر مظلومیت کا علم بلند کرتی انتخابات میں اترے، اس کے برعکس مسلم لیگ (ن) کی قیادت اپنی’’ باری‘‘ کیلئے اتنی بے چین ہے کہ غلطیوں پر غلطیاں کر رہی ہے، وہ ہر سیاسی تحریک کو اپنے لئے خطرہ سمجھ کر بلا جواز اس کے ساتھ لڑائی مول لے رہی ہے۔ عمران خان نے کامیاب جلسہ کیا تو یہ اس کے خلاف ہو گئے بلکہ یہ کہنا درست ہے کہ اس کو خوا مخواہ اپنے پیچھے لگا لیا۔ اب ڈاکٹر طاہر القادری کے جلسے اور دھرنے کو دیکھ کر یہی حال ہو گیا ہے، وہ ہر سیاسی موومنٹ کو اپنے خلاف سمجھ کر آسے دشمن بنا لیتے ہیں، عوام پہلے ہی پیپلزپارٹی کے پانچ سالہ عذاب کی وجہ میاں نواز شریف کو سمجھ رہی ہے اور اب ایسی حرکتوں سے وہ اپنے ممکنہ ووٹروں کو بھی دور بھگا رہی ہے۔ مسلم لیگ(ن) سندھ میں پیپلز پارٹی کے خلاف اتحاد بنانے کی کوششوں میں لگی ہے تو پیپلزپارٹی نے پنجاب میں جوڑ توڑ کا میلا لگا رکھا ہے ، اسی سیاسی تعصب کے ماحول میں پنجاب میں نئے صوبے کی تشکیل نفرت کے بیج بو رہی ہے۔ حخکومت نے یکطرفہ طور پر جس صوبے کی تجویز پیش کی ہے اس پر جنوبی پنجاب میں عدم اطمینان کا اظہار ہو رہا ہے۔ اب ایسے لگتا ہے کہ پی پی جو کنواں مسلم لیگ کیلئے کھود رہی تھی اب اس میں خود گرنے والی ہے۔ سیاسی فائدے یا نقصان سے قطع نظر نئے صوبوں کا ایشو قوم کو مزید تقسیم کرنے کا باعث ہی بنے گا۔ سیاستدانوں کو ناپختہ کاری اور غیر سنجیدگی کے باوجود اسٹیبلشمنٹ اور مقتدر حلقے بڑے صبر و تحمل کے ساتھ حالات کا مشاہدہ کر رہے ہیں اسی خاموشی کے پیچھے طوفان چھپا ہے۔ اس سے سیاستدان بھی خوفزدہ ہیں مگر ذاتی و سیاسی مفادات ان کو قومی سوچ اپنانے سے روک رہے ہیں اب ایسے نظر آ رہا ہے کہ انتخابات سے پہلے ہی باہمی اختلافات ایسا موقع لے آئیں گے جو کسی ناپسندیدہ فیصلہ پر منتج ہوگا۔ بالخصوص ان حالات میں کہ بھارت سے لائن آف کنٹرول پر کشیدگی پھیلا کر جارحیت شروع کر رکھی ہے۔ قومی ادارے غیر یقینی اور انارکی کی فضا برداشت نہیں کریں گے ، اب وقت ہے کہ سیاسی قیادت بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے حالات پیدا کریں تاکہ پر امن انتخابی عمل شروع ہو سکے ، اس کیلئے پہلا عمل الیکشن کمیشن کو با اختیار اور غیر جابندار بنانا ہے اس وقت اپوزیشن کو الیکشن کمیشن پر تحفظات ہیں ، بالخصوص صوبائی الیکشن کمشنرز کے بارے میں اچھی رائے نہیں۔ ان تحفظات کو دور کرنے کیلئے آئینی راستہ اختیار کرتے ہوئے حکومت کو جلد از جلد نگران حکومتوں کیلئے مشاورت شروع کرنی چاہئے تاکہ آئندہ عام انتخابات سیاسی گروپوں کیلئے قابل قبول ہوں اور اس کے نتیجے میں سامنے آنے والی قیادت ملکی حالات بہتر بنانے کی کوشش کرے، اگرچہ پر امن اور خوشگوار ماحول میں انتقال اقتدار سب کی خواہش ہے مگر ان لمحات میں زیادہ سے زیادہ ’’ فائدہ ‘‘ سمیٹنے کے چکر میں ماحول پراگندہ کرنے سے اجتناب برتنا ضروری ہے ، اس حوالے سے حکومت پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ توقع رکھنی چاہئے کہ دونوں جانب سے ذمہ دارانہ طرز عمل سے ماحول بہتر بنانے کی جانب پیش رفت ہوگی اور یہی اس وقت ملکی مفاد کا تقاضا ہے۔{jcomments on}

اپنا تبصرہ بھیجیں