ق لیگ پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر جیت کا وزن اٹھا سکے گی؟

جاوید چشتی
سابق صدر جنرل مشرف کے جانے کے بعدمسلم لیگ (ق) عملی طورپر ایک ایسے بچے کی حیثیت اختیار کر گئی تھی ،جس کا باپ گھر سے بھاگ گیا ہواور کوئی منقولہ یا غیر منقولہ جائیداد بھی چھوڑ کے نہ گیا ہو،

 

رہی سہی کسر اس وقت نکل گئی جب آصف علی زرداری نے اس جماعت کے سرپر ہاتھ رکھا یا اس جماعت نے خود اپنا سر صدر کی جھولی میں رکھا اور ڈپٹی وزیراعظم کا عہدہ چودھری پرویز الہیٰ کو پیش کرکے اس جماعت کو ’’قابل لیگ‘‘ بنادیا۔این اے 52اور پی پی5میں ایک عرصہ سے پاکستان پیپلزپارٹی کو کوئی جاندار امیدوار نہیں مل رہاتھا اور اب بات یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ نوافل اور صدقات وخیرات کے ساتھ چشم نم لیے لمبی لمبی دعائیں مانگی جارہی تھیں کہ ’’یااللہ ہمیں اس گرداب سے نجات عطافرما‘‘قبولیت کیلئے ایک عرصے تک منتظر رہنے کے بعد آخر کار یہ دعائیں رنگ لائیں اور قرعہ فال پاکستان مسلم لیگ(ق) کے حق میں نکلا، جس کی رو سے سابق حکومتی اتحادی ان دونوں حلقوں میں یک جان ہو کر سابق قائد حزب اختلاف چودھری نثارعلی خان اور سابق ممبرصوبائی اسمبلی انجینئر قمرالاسلام راجہ کا مقابلہ کریں گے ۔سابق صوبائی وزیرقانون محمدبشارت راجہ حلقہ این اے 52جبکہ سابق ٹاؤن ناظم کلرسیداں ملک سہیل اشرف پی پی 5سے مسلم لیگ(ق) کے امیدوار ہوں گے اور ان کی چیف سپورٹر پاکستان پیپلز پارٹی ہو گی۔ دعاکی قبولیت اس طرح ہوگی ؟شاید کبھی جیالوں نے سوچابھی نہ تھا۔یہ تو ایسے ہی ہواکہ ایک شخص دعامانگ رہاتھا کہ’’ یااللہ میرابانڈنکل آئے‘‘ اور تھوڑی دیر کے بعد بھیڑمیں اس کی جیب سے انعامی بانڈ کسی نے نکال لیاتو وہ منہ لٹکائے ،شکایت کے اندازمیں گویا ہواکہ ’’اللہ میاں!پہلے کسی کی پوری بات توسن لیاکرو پھر دعاقبول کیا کرو‘‘ پیپلز پارٹی کا گرداب سے نکلنے کا بھی یہ مطلب ہر گزنہ تھا جو قبولیت کی صورت میں اس کے سامنے آیا۔سیاسی حلقوں کے مطابق بے رنگ،بے بواور بے ذائقہ مسلم لیگ(ق) حلقہ این اے 52اور پی پی 5میں پاکستان پیپلزپارٹی کو چاروں شانے چت کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے اور اب یہاں ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کوچاہنے والے ’’ترقی کے نشان سائیکل‘‘پر اپنی مہریں لگائیں گے ۔ محولا بالا دونوں حلقوں میں بیلٹ پیپرپر تیر کا نشان شائع نہیں کیا جائے گا،کیونکہ یہاں اس جماعت کا کوئی امیدوار سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔البتہ فضل حسین سابق ناظم یونین کونسل درکالی معموری نے اس فیصلے کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے خود پی پی 5کا امیدوار بن کے پی پی ،(ق) اتحاد کے لئے دردسر بن گئے ہیں۔جب محترمہ بے نظیر بھٹو کو لیاقت باغ کے مقام پر شہید کردیاگیا تو یہاں کلر سیداں میں محمد فیاض کیانی، محمد اعجاز بٹ، چودھری زین العابدین عباس، محمدنصیر بھٹی، نوید مغل،ماسٹر غالب حسین اور دیگر دھاڑیں مارکر روتے پائے گئے اور یہاں کے لیگیوں نے بھی ان سے باضابطہ طورپر اظہار تعزیت کیاتھا۔کیانسل درنسل ذوالفقار علی بھٹو کو چاہنے والے اپنی زندگی میں پہلی بار تیرکے بجائے سائیکل پر مہر لگاپائیں گے؟یہ سوال زبان زدعام ہے ۔بعض معمر جیالوں نے الیکشن کے عمل میں شامل نہ ہونے کا عندیہ دیاہے لیکن عملی سیاست میں سرگرم کارکنوں اور مقامی رہنماؤں نے پارٹی قیادت کے فیصلے کی مکمل پاسداری کرنے کا اخباری بیان بھی جاری کر دیاہے ،لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اس فیصلے کے بعد جیالوں میں وہ جوش وخروش مفقود ہو گیا ہے جو حاجی نواز کھوکھر کے پارٹی امیدوار بننے کی موہوم سی صورت میں دیکھنے کو ملاتھا۔دوسری جانب یہ سوال بھی سیاسی حلقوں میں موضوع بحث بنا ہواہے کہ کیا مسلم لیگ(ق) جنرل مشرف دوراتنے ووٹ حاصل کرلے گی؟حقیقت میں اس وقت ناظمین، نائب ناظمین اور کونسلرز کی اکثریت مسلم لیگ(ق)کو خیر آباد کہہ کر اپنی سابقہ سیاسی جماعتوں میں واپس آ چکی ہے۔بنیادی جمہوریتوں کے دلدادہ اب اپنی سابقہ جماعتوں میں نمایاں دکھائی دے رہے ہیں، مسلم لیگ(ق) کا ووٹ بینک کافی سکڑ چکا ہے اور آنیوالے دنوں میں اس میں مذیدسکڑاؤ کا خدشہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دھمیال ہاؤس کا ایک دھڑا اس حلقہ میں موجودہے لیکن وہ دھڑا موجودہ حالات میں سیاسی نتائج کو تبدیل کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔ جب پرویز مشرف کی زیر قیادت وسیادت الیکشن میں این اے 52کی سیٹ بری طرح ہاتھوں سے پھسل گئی تھی تو اب جب کہ اس سیٹ پر اربوں روپے کے ترقیاتی کاموں کا آملیٹ لگا ہو اہے ،ہاتھ آنا قدرے مشکل ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے بھی ان دونوں حلقوں کو اپنے دور اقتدار میں بری طرح نظر انداز کیا۔ بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ سے لے کر میگا پراجیکٹ کے اعلانوں تک یہاں کے لوگوں کو ’’یاد ہے ذرا ذرا‘‘ عوام کے مطالبے کے بغیر پیپلز پارٹی کی قیادت نے یہاں دورویہ سڑک، سویٹ ہوم، پاسپورٹ آفس،جی پی او، 35کروڑ ترقیاتی فنڈز ایسے منصوبوں کااعلان تو کیا لیکن ایک بھی وعدہ ایفا نہ کرکے عملی طورپر بھی ثابت کردیا کہ ’’وعدے کوئی قرآن وحدیث تو نہیں ہوتے‘‘سیاست بڑا بے رحم کھیل ہے ،جب ٹاؤن ناظم کے لئے الیکشن ہو رہا تھا تو حافظ سہیل اشرف ملک یہاں پاکستان پیپلز پارٹی کی حمائت حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہے تھے، لیکن وہ مردمیدان رہے ۔اس وقت ان پر الزام عائد کیاجاتاتھا کہ وہ ڈکٹیٹڑ کی جماعت کے بندے ہیں، اب جب کہ وہ حکومتی اتحاد کے امیدوار کے طورپر میدان میں اترے ہیں تو پاکستان پیپلزپارٹی کو یہ وضاحت کرنا تھوڑا مشکل ہورہاہے کہ کیا کل کی مسلم لیگ(ق) اور آج کی مسلم لیگ (ق) میں کوئی فرق ہے؟دوسری جانب یہ امر بھی دل چسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ جب انجینئر قمرالسلام راجہ حلقہ پی پی 5میں اس وقت مسلم لیگ(ق) کی جانب سے میدان میں موجود تھے توان کے چیف سپورٹروں میں حافظ سہیل اشرف ملک کا نام بھی شامل تھا لیکن اب کی بار وہ آمنے سامنے ہیں،کیونکہ انجینئر قمرالاسلام راجہ نے فارورڈ بلاک کو جائن کر کے اپنا وزن میاں شہبازشریف کے پلڑے میں ڈال دیاتھا۔ملک سہیل اشرف نے اپنے دور نظامت میں بے شمار ترقیاتی کام کروائے اور وہ مسٹرکلین کے نام سے جانے جاتے ہیں،ان کی شرافت اور دیانت کی گواہی اپنے اور غیر سبھی دیتے ہیں، اسی طرح دھمیال ہاؤس نے بھی ہارنے کے باوجود اپنا رابطہ حلقہ میں بدستور رکھا،لیکن مصیبت یہ ہے کہ مسلم لیگ (ق) کے لئے مشرف کے آٹھ سالہ دور کی’’ ستم ظریفیاں‘‘ اور گزشتہ پانچ سالہ پیپلز پارٹی دور کی ’’وعدہ خلافیاں‘‘گلے کی ایسی ہڈیاں ہیں جو نہ نگلی جاسکتی ہیں نہ اگلی جاسکتی ہیں۔کیا ان تیرہ سالہ’’ کارناموں ‘‘کے بھاری وزن کے ساتھ مسلم لیگ (ق)، پاکستان پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر جیت کا وزن بھی اٹھا سکے گی؟{jcomments on}

اپنا تبصرہ بھیجیں