احساس غربت

جب ہم راہ چلتے مسجد کے باہر جمع دست سوال دراز کرنے والے کی ہتھیلی پر کچھ روپے، چند سکے رکھتے ہیں تو لمحہ بھر کے لیے کسک محسوس کرتے ہیں کہ یہ حد زیادہ ضرورت مند ہے کن حالات نے اس کواس مقام پر لا کھڑا کیا ہے

 معذوری کے ہاتھوں مجبور ہو کر ہر ایک کے سامنے آہیں اور سسکیاں بھر رہا ہے یا پھر بے گھر اور لاوارث ہونے کی وجہ سے اپنے جیسے آدم زاد کو دیکھ کر حسرت و یاس کی تصویر بن رہا ہے اگر ہم اپنی مصروفیات سے کچھ وقت نکال کر ان کہانیوں کے پس پردہ جاننے کی کوشش کریں اور یقیناً درد دل رکھنے والے اپنے اشکوں کو چھلکنے سے نہ روک سکیں گزشتہ ہفتہ خطہ پوٹھوہار طوفانی بارشوں کی زد میں رہا اور سردی کی غیر متوقع لہر نے ہمیں ضرور احساس میں مبتلا کیا ہو گا جب باہر بارش ہو رہی تھی اور سردی بھی خوب تھی ہم کوئلے کی انگیٹھی کے گرد بیٹھے ہوئے تھے تو ایک سوال نے ہمیں بھی احساس غربت میں چونکا دیا کہ کیا یہ ٹینٹ اور جگھی کے مکین بھی ہماری طرح انگیٹھی کی تپش سے لطف و اندوز ہو رہے ہوں گے

اور ان کی بوسیدہ کپڑے اور ٹینٹ کی جھگیا ں کیسے سردی سے تحفظ دے رہی ہوں گی جب کئی دنوں سے لگی بارش تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھی اور دوست نت نئے پکوانوں کی تیاری اور اور کھانے سے بھی نبٹ رہے تھے تو دروازے پر دستک نے یوں جھٹکا دیا کہ ایک دیہاڑی داڑ مزدور جس نے شام کو مزدوری وصول کرتے ہی ضرورت کی چیزیں خرید کر گھر جلدی پہنچنا ہوتا ہے کہ میرے بچے کھانے کا انتظار کر رہے ہوں گے تو کیا وہ بھی ہماری طرح حلوے ،مچھلی، انڈے اور مونگ پھلی سے لطف و اندوز ہو رہا ہو گا یا اس سے بارش کم ہونے یا ختم ہونے کا انتظار ہو گا چھٹیاں ختم ہوتے ہی اگلی صبح سب نے اپنے کاموں کی طرف جانا ہوتا ہے بارش ہونے کی وجہ سے سڑک اور اس کے کناروں پر پانی جمع ہوتا ہے بوسیدہ کپڑوں کے گیلا ہونے کی وجہ سے عجب بو ہونے کی وجہ سے مسافر وین میں بیٹھے دیگر مسافروں کی حقارت بھری نگاہوں کا سامنا بھی ہوتا ہے اپنے ساتھ بٹھانے کے لیے بھی بعض و اوقات کوئی را ٰ ضی نہیں ہوتا مجھے نامور ادیب جناب اشفاق احمد مرحوم کا ایک افسانہ یا دآ رہا ہے جس میں میں انہوں نے ایک بابا جی کی محفل کا احوال بیان کیا ہے جس میں لتھڑے جسم اور میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس اور چہرے پر اٹی گرد کے مالک ایک نوجوان کی موجودگی حاضرین کی طبیعتوں پت بھاری گزر رہی تھی کھانے کا وقت قریب آرہا تھا اور بابا جی نے پانی کی ایک بھری بالٹی ،ایک ٹب اور تولیہ صابن منگوایا اور سب کے سامنے اس نوجوان کو نہلایا دھلایا تو ایسا نکھرا چہرہ اور خوبصورت نقش کا مالک نوجوا برآمد ہوا کہ سب حاضرین انگت بدنداں رہ گئے

تب بابا جی حاضرین کو مخاطب کیا کہ کیوں بھئی اس لیے ہی سب نفرت کر ہے تھے ناں اور اسی کی موجودگی آپ کو تکلیف پہنچا رہی تھی ناں۔بارش کی وجہ سے تین دن تک بجلی بند رہی اور الیکٹرک ٹارچ بھی ساتھ چھوڑ گئیں ،موٹریں نہ چلنے کی وجہ سے پانی کی قلت ہو گئی اور ،متبادل بندو بست لالٹین نہ ہونے کی وجہ سے انھیرے میں بھی بیٹھنا پڑا تو نہ جانے کتنے لوگ آج سے تیس سال ۔چالیس سال قبل کے حالات کا ادراک کرنے میں کامیاب ہو گئے جب ایندھن کے لیےLPG کی بجائے سر کنڈوں کا استعمال ہوتا تھا اور سردیوں میں مال مویشی کے لیے بھوسے کی جگہ خشک گھاس کا ذخیرہ ہوتا تھا جب مکانات کی دیواریں اور چھتیں کچی ہونے کی وجہ سے گر جاتی تھیں

ہمیں وہ باتیں بھی معلوم ہونے لگیں جب غربت نے تو چولہوں کو بجھا کر ہی رکھا تھا دیگر ذرائع بھی محدود تھے ایک کمانے والا اور کئی کھانے والے ہوتے تھے روپیہ پیسہ عام نہ تھا جنس کے بدلے ضرورت کی اشیاء حاصل کی جاتی تھیں اب اگر تنگی داماں کا شکوہ ہے تو بجا مگر احساس غربت کا شکوہ بھی بجا ہے آج بھی معاشرے میں ضرورت مندوں کی کمی نہیں ،بے بس لاچار لوگ موجود ہیں ،ہمیں احساس کی ضرورت ہے چند سکے دے دینے سے ہم بری الذمہ نہیں ہو سکتے وقتی آنسوؤں کو تھمنے سے تو روک سکتے ہیں ان آنکھوں میں چمک نہیں لاسکتے

اپنا تبصرہ بھیجیں