عید الاضحٰی

دوسری عید کو قربانی کی مناسبت سے عید الاضحی (یعنی قربانی کی عید ) کہا جاتا ہے جو کہ ہر سال ذوالحجہ کی دسویں تاریخ کو منائی جاتی ہے۔اس عید کو بڑی عید اس لئے کہتے ہیں کہ یہ تین دن تک ہوتی ہے۔

دوسری عید کو قربانی کی مناسبت سے عید الاضحی (یعنی قربانی کی عید ) کہا جاتا ہے جو کہ ہر سال ذوالحجہ کی دسویں تاریخ کو منائی جاتی ہے۔اس عید کو بڑی عید اس لئے کہتے ہیں کہ یہ تین دن تک ہوتی ہے۔

مستحباتِ عید الاضحٰی: عید الاضحی کے دن کے مستحبات درج ذیل ہیں:۔

1 ۔ نماز کے بعد افطار کرنا (یعنی کھانا پینا/ناشتہ کرنا) بہتر ہے کہ قربانی کے گوشت سے افطار کریں (اس سے پہلے کچھ نہ کھائیں پئیں۔

2۔غسل کرنا

3۔ خوشبو لگانا

4۔مسواک کرنا

5۔ اپنے پاس موجود سب سے اچھا لباس پہننا

6۔ ایک راستے سے جانا اور دوسرے راستے سے واپس آنا

7۔عید گا تک پیدل جانا

8۔بلند آواز سے تکبیر کہنا

مکروہ :عید کے روز عید کی نماز سے قبل گھر میں یا عید گاہ میں کوئی بھی نماز پڑھنا مکروہ ہے البتہ گھر میں قضا نماز پڑھ سکتے ہیں۔

عید کی نماز کا وقت: عیدین کی نمازکا وقت سورج کے اچھی طرح نکل آنے (ایک نیزہ بلند ہونے) سے شروع ہوتا ہے اور سورج ڈھلنے تک رہتا ہے۔(اگر نمازِ عید کے دوران سورج ڈھل گیا تو عید کی نماز ٹوٹ جائے گی(

عید الاضحٰی تین دن: جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا کہ عید الاضحی تین دن ہوتی ہے اس لیے اگر عیدالاضحی کی نماز کسی وجہ سے ذوالحجہ کی دس تاریخ کو نہ پڑھی جا سکی تو گیارہ ذوالحجہ کو اور اگر گیارہ کو بھی نہ پڑھی جا سکی تو پھر بارہ ذوالحجہ کو پڑھی جا سکتی ہے۔ اس کے بعد نہیں پڑھی جا سکتی۔ یہ حکم اجتماعی نماز کا ہے اگر کسی ایک فرد کی نماز عید رہ گئی تو وہ کسی بھی دن اکیلے نمازِ عید نہیں پڑھ سکتا۔ بلا عذر عیدکی نماز دوسرے دن پڑھنا گناہ ہے۔

نمازِ عید کی نیت: میں اس امام کے پیچھے دو رکعت نمازِ عید واجب مع چھ زائد تکبیرات کے پڑھنے کی نیت کرتا ہوں۔

عید کی نماز کا پڑھنے کا طریقہ: عید کی نماز دو رکعت ہے۔ عام نماز اور عید کی نماز میں یہ فرق ہے کہ اس مین چھ تکبیریں زیادہ کہی
جاتی ہیں۔

تکبیرِ تحریمہ کے بعد ہاتھ باندھ کر ثنا پڑھی جائے گی، پھروقفے وقفے سے دو دفعہ تکبیر کہتے ہوئے ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑ دیے
جائیں گے اور پھر تیسری دفعہ تکبیر کہتے ہوئے ہاتھ کانوں تک اٹھا کر باندھ لئے جائیں گے۔ پھر امام صاحب بآوازِ بلند سورۃ الفاتحہ اور کوئی اور سورت پڑھیں گے۔پھر رکوع اور سجدہ جیسا کہ باقی نمازوں میں ادا کرتے ہیں اسی طرح کریں گے۔

دوسری رکعت میں امام صاحب کے بآوازِ بلند سورۃ الفاتحہ اور کوئی سورت پڑھنے کے بعد، رکوع میں جانے سے پہلے امام صاحب کی پیروی میں وقفے وقفے سے تین دفعہ تکبیر کہتے ہوئے ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑ دیے جائیں گے اور پھر چوتھی دفعہ تکبیر کہتے ہوئے رکوع کیا جائے گا۔ دو تکبیروں کے درمیان اتنا وقفہ مستحب ہے کہ جس میں تین مرتبہ تسبیح (سبحان ربی الاعلیٰ) پڑھی جا سکے۔

عیدین کا خطبہ: عید کی نماز کے بعد امام صاحب جمعہ کی طرح دوخطبے دیں گے جنمیں عید اور قربانی کے احکامات بیان فرمائیں گے۔

تکبیراتِ تشریق اور ایامِ تشریق

تکبیر کا مطلب ہے ’’اﷲاکبر‘‘ کہنا اور تشریق کا مطلب ہے گوشت کو دھوپ میں خشک کرنا، ایام ،یوم کی جمع ہے جس کا مطلب ہے دن۔ یوں تکبیراتِ تشریق کا مطلب ہو ا وہ تکبیرات جو گوشت خشک کرنے کے دنوں میں کہی جاتی ہیں۔

ایامِ تشریق: ایامِ تشریق ۹ ذوالحجہ سے لیکر ۱۲ ذوالحجہ تک چار دن ہیں۔

تکبیراتِ تشریق: تکبیراتِ تشریق ۹ ذوالحجہ کی نمازِ فجر سے لے کر ۱۲ ذوالحجہ کی نمازِ عصرتک ہر فرض نماز کے بعد بآوازِ بلند پڑھی جاتی ہیں۔

تکبیراتِ تشریق کا حکم: ایامِ تشریق میں ہر فرض نماز کے بعد ایک بار تکبیرِ تشریق کہنا ہر نمازی پر واجب ہے۔

تکبیراتِ تشریق کے الفاظ: اَﷲُ اَکبَر ، اَﷲُ اَکبَر ، لَااِلٰہَ اِلَّا اﷲُ وَاﷲُ اَکبَر ، اَﷲُ اَکبَر ، ولِلّٰہِ الحَمدُ

ترجمہ: اﷲ سب سے بڑا ہے ، اﷲ سب سے بڑا ہے ، اﷲ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، اوراﷲ سب سے بڑا ہے ، اﷲ سب سے بڑا ہے ، اور تمام تعریفیں اﷲ ہی کیلئے ہیں۔

قربانی: عید الاضحی کی نماز کے بعد صاحبِ استطاعت لوگ اﷲ کی راہ میں گائے ، بھینس،بھیڑ، بکری یا اونٹ (نر یا مادہ)خالص اﷲ کی رضا کیلئے ذبح کریں گے۔

قربانی

تاریخی پسِ منظر

کسی حلال جانور کو اﷲتعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی نیت سے ذبح کرنا قربانی کہلاتا ہے۔ سب سے پہلی قربانی حضرت آدم ؑ کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل نے دی۔ قربانی کے قبول ہونے یا نہ ہونے کہ پہچان پہلے انبیاء علیھم السلام کے زمانے میں یہ ہوتی تھی کہ جس قربانی کو اﷲ تعالیٰ قبول فرماتے تو آسمان سے ایک آگ آتی اور اس کو جلا دیتی تھی۔ اس زمانہ میں کفار سے جہاد کے ذریعہ جو مالِ غنیمت ہاتھ آتا تھا اس کو بھی آسمان سے آگ نازل ہو کر کھا جاتی تھی، یہ اس جہاد کے مقبول ہونے کی علامت سمجھی جاتی تھی۔

اُمتِ محمدیہ ﷺ پر اﷲ تعالیٰ کا یہ خصوصی انعام ہوا کہ قربانی کا گوشت اور مالِ غنیمت ان کے لئے حلال کر دیے گئے۔حدیث شریف میں رسول اﷲ ﷺ نے اپنے خصوصی فضائل اور انعاماتِ الٰہیہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا اُحِلَّت لِی الغَنَائِم)میرے لئے مالِ غنیمت حلال کر دیا گیا) یعنی مالِ غنیمت کو استعمال کی اجازت دے دی گئی۔

قربانی – سنتِ ابراہیمی

حضرت ابراہیم ؑ کا خواب:

’’سو جب وہ فرزند (حضرت اسماعیل ؑ ) ایسی عمر کو پہنچا کہ ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ چلنے پھرنے لگا تو ابراہیم ؑ نے فرمایا: برخوردار میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تم کو ذبح کررہا ہوں‘‘۔(القرآن)

ایک رات حضرت ابراہیم ؑ نے خواب دیکھا کہ اپنے بیٹے حضرت اسماعیل ؑ کو ذبح کر رہے ہیں۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خواب حضرت ابراہیم ؑ کو تین روز متواتردکھایا گیا (قرطبی)۔ اور یہ بات طے شدہ ہے کہ انبیاء علیھم السلام کا خواب وحی ہوتا ہے، اس لیے اس خواب کا مطلب یہ تھا کہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے حضرت ابراہیم ؑ کو حکم ہوا ہے کہ اپنے اکلوتے بیٹے کو ذبح کر دیں۔یوں یہ حکم براہِ راست کسی فرشتے وغیرہ کے ذریعے بھی نازل کیا جا سکتا تھا لیکن خواب دکھانے کی حکمت بظاہریہ تھی کہ حضرت ابراہیم ؑ کی اطاعت شعاری اپنے کمال کے ساتھ ظاہر ہو، خواب کے ذریعے دیے ہوئے حکم میں انسانی نفس کے لئے تاویلات کی بڑی گنجائش تھی، لیکن حضرت ابراہیم ؑ نے تاویلات کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے اﷲکے حکم کے آگے سر تسلیمِ خم کر دیا۔”تفسیرِ کبیر”

بیٹے سے مشورہ:

حضرت ابراہیم ؑ نے بیٹے حضرت اسماعیل ؑ سے اس سلسلے میں ان کی رائے پوچھی۔

ً’’سو تم بھی سوچ لو کہ تمھاری کیا رائے ہے”القرآن

حضرت ابراہیم ؑ نے یہ بات حضرت اسماعیل ؑ سے یہ بات اس لئے نہیں پوچھی کہ آپؑ کو حکمِ الٰہی کی تعمیل میں کوئی تردد تھا، بلکہ ایک تو وہ اپنے بیٹے کا امتحان لینا چاہتے تھے کہ وہ اس آزمائش میں کس حد تک پورا اترتے ہیں؟ دوسرے انبیاء علیھم السلام کا طرز ہمیشہ یہ رہا ہے کہ وہ احکامِ الٰہی کی اطاعت کیلئے تو ہر وقت تیار رہتے ہیں، لیکن اطاعت کیلئے ہمیشہ راستہ وہ اختیار کرتے ہیں جو حکمت اور حتی المقدور سہولت پر مبنی ہو، آپ نے یہ بات بیٹے سے مشورے کے انداز میں اس لئے ذکر کی کہ بیٹے کو پہلے سے اﷲ تعالیٰ کا حکم معلوم ہو جائے اور وہ ذبح ہونے کی اذیت سہنے کیلئے پہلے سے تیار ہو سکے۔لیکن وہ بیٹا بھی اﷲ کے خلیل کا بیٹا تھا اور اسے خود معصبِ رسالت پر فائز ہونا تھا، انھوں نے جواباً فرمایا:۔

فرماں بردار بیٹے کا جواب:

’’ابّا جان! جس بات کا آپ کو حکم دیا گیا ہے اُسے کر گزرئیے”القرآن

اس سے حضرت اسماعیل ؑ کے بے مثال جذبہءِ ایثاری کی تو شہادت ملتی ہی ہے، اس کے علاوہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کم سِنی ہی میں اﷲ نے انھیں کیسی ذہانت اور کیسا علم عطا فرمایا تھا۔اگرچہ حضرت ابراہیم ؑ نے انھیں اﷲ کے کسی حکم کا حوالہ نہیں دیا تھا لیکن وہ سمجھ گئے کہ انبیاء علیھم السلام کا خواب وحی ہوتا ہے، چنانچہ انھوں نے جواب میں خواب کے بجائے حکمِ الٰہی کا تذکرہ فرمایا۔
حضرت اسماعیل ؑ نے اپنی طرف سے اپنے والد بزرگوار کو یہ یقین بھی دلایا کہ:۔

’’ ان شاء اﷲ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔‘‘ (القرآن)

اس جملے میں حضرت اسماعیل ؑ کی غایتِ ادب اور غایتِ تواضع کو تو دیکھیے، ایک تو اِ ن شاء اﷲ کہہ کر معاملہ اﷲ کے سپرد کر دیااور اس وعدے میں دعوے کی جوظاہری صورت پیدا ہو سکتی تھی اسے ختم فرما دیا۔

حکم کی تعمیل:

چنانچہ ان دونوں باپ بیٹے نے اﷲ کے حکم کی تعمیل کا مصمم ارادہ کر لیا اور اس ارادے سے گھر سے نکال پڑے۔ راستے میں تین مرتبہ شیطان نے حضرت ابراہیم ؑ کو مختلف حیلے،بہانوں سے بہکانے کی کوشش کی لیکن ہر بار حضرت ابراہیم ؑ نے اسے سات کنکریاں مار کر بھگا دیا۔ (آج تک منٰی کے تین جبرات پر اسی محبوب عمل کی یاد میں کنکریاں ماری جاتی ہیں)بالآخر جب وہ دونوں باپ بیٹا یہ انوکھی عبادت انجام دینے کیلئے قربان گاہ پہنچے تو حضرت اسماعیل ؑ نے اپنے والد سے کہا کہ ’’ ابا جان! مجھے خوب اچھی طرح باندھ دیجیے، تاکہ میں زیادہ تڑپ نہ سکوں اور اپنے کپڑے بھی مجھ سے بچائیے، ایسا نہ ہو کہ ان پر میرے خون کی چھینٹیں پڑیں تو میرا ثواب گھٹ جائے، اس کے علاوہ میری والدہ میرا خون دیکھیں گی تو انھیں زیادہ غم ہو گا، اور اپنی چھری تیز کر لیجیے اور اسے میرے حلق پر ذرا جلدی جلدی پھیریے گا تاکہ آسانی سے میرا دم نکل سکے کیونکہ موت بڑی سخت چیز ہے اور جب آپ میری والدہ کے پاس جائیں تو انھیں میرا سلام کہہ دیجیے گا، اور اگر آپ میری قمیص میری والدہ کے پاس لے جانا چاہیں تو لے جاہیں، شاید اس سے انھیں کچھ تسلی ہو‘‘ اکلوتے بیٹے کی زبان سے یہ الفاظ سن کر ایک باپ کے دل پر کیا گزر سکتی ہے اس کا اندازہ لگانا نہایت مشکل ہے۔ مگر حضرت ابراہیم ؑ استقامت کا پہاڑ بن کر جواب دیتے ہیں کہ ’’بیٹے! تم اﷲ کے حکم پورا کرنے کیلئے میرے کتنے اچھے مددگار ہو۔‘‘ یہ کہہ کر انھوں نے بیٹے کو بوسہ دیا اور پُرنم آنکھوں سے انھیں باندھ دیا۔
حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل ؑ کو سیدھا زمین پر لٹایا اور گلے پر چھری چلانے لگے لیکن بار بار چھری چلانے کے باوجود گلا نہیں کٹتا تھا کیونکہ اﷲ نے اپنی قدرت سے پیتل کا ایک ٹکڑا بیچ میں حائل کر دیا تھا۔ اس موقع پر بیٹے نے خود یہ فرمائش کی کہ ابا جان ! مجھے چہرے کے بل کروٹ سے لٹا دیجئے، اس لئے کہ جب آپ کو میرا چہرا نظر آتا ہے تو شفقت پدری جوش مارنے لگتی ہے اور گلا نہیں کٹ پاتا۔ چنانچہ حضرت ابراہیم ؑ نے انھیں اوندھے منہ زمین پر لٹا دیا اور پھر سے چھری چلانا شروع کر دی۔ لیکن اﷲ کو تو بس ان کا امتحان لینا مقصود تھا، جس میں وہ پوری طرح کامیاب ہو چکے تھے۔چنانچہ

امتحان میں کامیابی:

غیب سے ایک آواز آئی ’’ اور ہم نے انھیں آواز دی کہ اے ابراہیم ! تم نے اپنا خواب سچ کر دکھایا‘‘القرآن

یعنی اﷲ کے حکم کی تعمیل میں جو کام تمھارے کرنے کا تھا اس میں تم نے کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ اب یہ آزمائش پوری ہو چکی اس لیے اب انھیں چھوڑ دو۔ ’’ہم مخلصین کو ایسا یہ صلہ دیا کرتے ہیں‘‘القرآن

یعنی جب کوئی بندہ اﷲ کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کرکے اپنے تمام جذبات کو قربان کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے تو ہم بالآخر اسے دنیاوی تکلیف سے بھی بچا لیتے ہیں اور آخرت کا اجر و ثواب بھی اس کے نامہءِ اعمال میں لکھ دیتے ہیں۔ حضرت ابراہیم ؑ نے یہ آسمانی آواز سن کر اوپر دیکھا تو حضرت جبرئیل ؑ ایک مینڈھا لئے کھڑے تھے۔ ’’اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے عوض میں دیا‘‘القرآن

یہ جنتی مینڈھا حضرت ابراہیم ؑ کو عطا ہوا اور انھوں نے اﷲ کے حکم کے عین مطابق اپنے بیٹے کو چھوڑ کر اس مینڈھے کو قربان کیا۔ اس ذبیحہ کو ’ ’ عظیم ‘‘ اس لئے کہا گیا کہ یہ اﷲ کی طرف سے آیا تھا اور اس کی قربانی کے مقبول ہونے میں کسی کو کوئی شک نہیں ہو سکتا۔

آج تمام مسلمان حضرت ابراہیم ؑ کی اسی سنت پر عمل کرتے ہوئے عید الاضحی کے دن جانور قربان کرتے ہیں۔اور حجاجِ کرام تین جمرات کو سات سات کنکریاں مارتے ہیں۔ اور حضرتِ ہاجرہ ؑ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے صفا و مروٰی پر سعی کرتے ہیں۔

مسائلِ قربانی

قربانی کے جانور

قربانی کے جانورکی عمر: قربانی کی جانور کی عمر کم از کم درج ذیل ہونی چاہیے۔اگر عمر اس سے کم ہوتو ایسے جانور کی قربانی درست نہیں۔

1۔ اونٹ : کم از کم پانچ (5) سال۔

2۔ گائے ، بھینس : کم از کم دو (2) سال۔

3۔ بھیڑ ، بکری : کم از کم ایک(1) سال۔

نوٹ: بھیڑ کا بچہ اگر ایک سال سے کچھ کم ہو مگر دیکھنے میں ایک سال کا ہی معلوم ہوتا ہو اور اسے اگر ایک سال کی بھیڑوں کے درمیان کھڑا کیا جائے تو وہ ان کے برابر ہی نظر آئے۔ تو اس کی قربانی بھی جائز ہے۔

جن جانوروں کی قربانی نہیں ہوتی:

1۔ ایساجانورجس کے جسم کا کوئی بھی عضو پوری طرح یا اس کا کچھ حصہ ضائع ہو چکا ہے یا کٹ چکا ہے۔

2۔ بہت ہی کمزور جانورجو قربان گاہ تک خود چل کے بھی نہ جا سکے۔

3۔ لنگڑا جانور

حصہ داری: اونٹ، گائے اور بھینس وغیرہ میں زیادہ سے زیادہ سات آدمی شریک ہو سکتے ہیں، جبکہ بھیڑ، بکری اور دنبہ وغیرہ میں شراکت داری نہیں ہو سکتی۔ بھیڑ ، بکری اور دنبہ وغیرہ کی قربانی صرف ایک ہی بندے کی طرف سے کی جا سکتی ہے۔

نیتِ قربانی: قربانی کرنے والے تمام افراد کی نیت قربانی کی ہی ہونی چاہیے، اگر گوشت حاصل کرنے کی نیت کی جائے توقربانی ضائع ہو جاتی ہے۔ قبول نہیں ہوتی۔ اونٹ ، گائے اور بھینس وغیرہ میں شریک تمام افراد کی نیت قربانی کی ہی ہونی چاہیے اگر کسی ایک کی نیت بھی گوشت کی ہوئی تو کسی کی قربانی قبول نہیں ہو گی۔ تمام افراد کی قربانی ضائع ہو جائے گی۔

 

مزید مسائل جاننے یا کوئی بھی مسئلہ پوچھنے کیلئے ابھی ای میل کریں۔ hafiz_umer2012@yahoo.com حافظ عمر چغتائی

اپنا تبصرہ بھیجیں