تاریخی پس منظر: افغان فاتحین یا مغل ہندوستان پر حملے کے لیے جس شاہراہ کو استعمال کرتے تھے وہ پشاور سے ہوتی ہوئی مندرہ سے چکوال روڈ اور پھر آہدی کے قریب سے گزرتی
ڈہونگ
تاریخی پس منظر: افغان فاتحین یا مغل ہندوستان پر حملے کے لیے جس شاہراہ کو استعمال کرتے تھے وہ پشاور سے ہوتی ہوئی مندرہ سے چکوال روڈ اور پھر آہدی کے قریب سے گزرتی ہوئی ڈہونگ کے مشرق سے شمالاً جنوباً ملہال مغلاں، خانپور، چوآسیدن شاہ سے ہوتی ہوئی کوہستان نمک یعنی کھیوڑہ کو عبو ر کرتی ہے، اسی طرح ایک شاہراہ ڈہونگ کے مغرب سے شمالاً جنوباًگزرتی ہے، ان دونوں شاہراہوں کے درمیان ڈہونگ واقع ہے، جو لشکر یہاں سے گزرتے تھے یہاں ان کے دو چھوٹے چھوٹے قبرستان بھی واقع ہیں، ان میں ایک قبر بڑی واضح ہے جو کمانڈر کی قبر کے نام سے مشہور ہے، خیال یہ کیا جاتا ہے کہ یہ کسی دستے کے کمانڈر کی قبر ہے جو یہاں سے گزرتے ہوئے فوت ہوا تو اسے بھی یہاں دفنا دیا گیا، ان قبرستانوں سے منجنیق میں استعمال ہونے والے پتھر بھی ملے ہیں ، بڑے طریقے سے تراشے ہوئے پتھر ہیں جو کمانڈر کی قبر کے سرہانے لگے ہوئے ہیں، یہ قبرستان اب تقریباً زمین برد ہو چکے ہیں،قلعہ نندنہ اسی شاہراہ پر واقع ہے ، وہی قلعہ نندنہ جہاں بیٹھ کر البیرونی نے زمین کا محیط معلوم کیا تھا۔
وجہ تسمیہ: ڈہونگ کے مغرب میں ایک بلند مقام پر آبادی کے آثار اب بھی موجود ہیں، اس بلند مقام کو ’’پِنڈ‘‘ کہا جاتا ہے، یہاں استعمال ہو ئے مٹی کے برتن، مٹی ہی کی بنی ہوئی گائے اور بیلوں کی مورتیاں، دستی چکیوں کے پُڑ،انسانی ہڈیاں اور قدیم آثار نمایاں ہیں، خدا جانے اس آبادی پر کیا آفت آئی کہ تباہ و برباد ہو گئی یا یہاں کی آبادی ترک سکونت کر گئی اور اپنی تباہی کے آثار پیچھے چھوڑ گئی اس بارے میں تاریخ پر پردہ پڑا ہوا ہے، موجودہ آبادی باقی علاقے کی نسبت نشیب میں واقع ہے یعنی ’’ڈوہنگی ‘‘ جگہ پر اس لیے اسے’’ ڈوہنگ‘‘ یا ’’ڈہونگ ‘‘کہا جا نے لگا
وجہ شہرت: اڑھائی تین سوسال قبل یہاں ایک بزرگ ہستی موجود تھی حافظ امام دمی، اس گاؤں کی پہلی مسجد کی بنیاد رکھی اور اس گاؤں میں پہلی اذان بھی انہوں نے ہی دی، پھر اس گاؤں میں کئی سال تک امامت کراتے رہے ، چکوال کے ایک مشہور بزرگ سید چراغ چہانوی نے بھی ان کے آگے زانوئے تلمذ تہہ کیے، دلچسپ بات یہ کہ دوسوسال تک اس گاؤں کی امامت حافظ امام دمی کے خاندان کے پاس رہی اور آج بھی اس مسجد میں جو بھی امام ہوتا ہے اس کو تنخواہ اسی خاندان کے لوگ دیتے ہیں، اس گاؤں کی وجہ شہرت میں جن شخصیات کا کردار رہا ہے ان میں ماسٹر احمد سعید عالم کے نانا اور ماسٹر فرمان علی کے بڑے بھائی میاں اشرف جو کبڈی کے بہت بڑے کھلاڑی تھے اور انکی شہرت چہار دانگ عالم پھیلی ہوئے تھی، اس کے علاوہ یہاں ایک ہستی ماسٹر الف دین نامی بھی گزری ہے، یہ بزرگ تعلیم سے اتنا لگاؤ رکھتے تھے کہ وصیت کی کہ مرنے کے بعد ان کی میت کو محکمہ تعلیم کے حوالے کر دیا جائے پھر ایسا ہی ہوا اور ان کی وفات کے بعدان کی وصیت کے مطابق انہیں سکول کے صحن میں ہی دفنایا گیا، گورنمنٹ بوائز ہائی سکول ڈہونگ کے صحن میں گیٹ کے دائیں جانب انکی قبر آج بھی موجود ہے
تعارف: پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے سے پہلے یہ گاؤں مسلمانوں کا گڑھ سمجھا جاتا تھا،گوجرخان سے اس کا فاصلہ پینتیس کلو میٹر ہے، دولتالہ گوجرخان روڈ پر آہدی موڑ سے اس گاؤں کی طرف سڑک نکلتی ہے جو آہدی سے ہوتی ہوئے تراٹی چوک میں آکر اس گاؤں میں داخل ہوتی ہے، اس کے علاوہ سید کسراں سے ایک سڑک نکلتی ہے جو ڈھوں سے ہوتی ہوئی ڈہونگ آتی ہے اور پھر یہاں سے براستہ تراٹی اور نڑالی سے ہوتی ہوئے سیدھی کونتریلہ میں داخل ہوتی ہے،ضلع راولپنڈی کی سرحد پر یہ گاؤں واقع ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں دو ڈہوکیں کیال کے نام سے موسوم ہیں ، ان میں ایک ڈہوک ضلع چکوال اور ایک ضلع راولپنڈی میں واقع ہے، دلچسپ بات یہ کہ بہت سے لوگوں کی زمینیں ضلع چکوال میں بھی آتی ہیں، اس کے مشرق میں ڈیڑھ کلو میٹر کے فاصلے پر نڑالی، مغرب میں تین کلومیٹر کے فاصلے پر کھیسہ، دومالی، شمال میں تین کلومیٹر کے فاصلے پر آہدی اور جنوب میں سات کلو میٹر کے فاصلے پر ضلع چکوال کا قصبہ ڈہوڈہ واقع ہے،یہاں کے لوگ بڑے ملنسار اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونے والے ہیں، بہت مذہبی ہم آہنگی پائی جاتی ہے، مسلکی اور سیاسی اختلاف کے باوجود اکٹھے اٹھتے بیٹھتے ہیں، ساٹھ سے زائد حاٖفظِ قرآن یہاں موجود ہیں،ہم جب سروے کے لیے گئے تو تمام سیاسی پارٹیوں کے سرکردہ افراد ایک ہی جگہ بیٹھے ہوئے مل گئے تھے، ان کی ہم آہنگی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اس گاؤں میں کوئی مقدمہ نہیں جو لڑائی جھگڑے کی بنیاد پر چل رہا ہو،اکثر یت پاکستان آرمی میں ملازمت کرتے ہیں، اس گاؤں سے ایک بریگیڈئر، چار کرنل اور ایک میجر آرمی میں رہ چکے ہیں،گاؤں میں گیس کے علاوہ تمام سہولیات موجود ہیں، ساری گلیاں کنکریٹ سے پختہ ہیں، بیشتر ترقیاتی کام ویلج ڈویلپمنٹ کمیٹی اور سٹیزن کمیونٹی بورڈ کے تحت ہوئے ہیں، تمام گلیاں، نالیاں، اور حفاظتی دیواریں پورے گاؤں کے مالی تعاون سے ہی ممکن ہوئی ہیں،جبکہ بہت سے ترقیاتی کام منتخب عوامی نمائندوں محمد خان بھٹی اور مرزا تجمل حسین جرال کی کاوشوں سے بھی ممکن ہوئے ہیں،اس کی داخلی آبادیوں میں ڈہوک کیال، ڈہوک سیداں، ڈہوک بابا نور (ڈہوک گجراں)اور کوٹ سلیمان شامل ہیں،آہدی آئل فیلڈ کے تین کنویں اس گاؤں کی زمینوں میں واقع ہیں جو چالو ہیں
گورنمنٹ بوائز ہائی سکول ڈہونگ: ہیڈ ماسٹر کی ذمہ داریاں بابر سعید صاحب ادا کر رہے ہیں، کافی محنت اور دیانت دار شخص ہیں، سکول کی عمارت موجودہ تعداد کے لیے ناکافی ہے، اس کے علاوہ طلبہ کے بیٹھنے کیلیے فرنیچر کی بھی شدید ضرورت ہے، سائنس ٹیچر موجود ہے لیکن لیبارٹری کا سامان موجود نہیں اس کے علاوہ ڈہونگ کی تینوں ڈہوکوں میں ایک ایک پرائمری سکول موجود ہے
داد پبلک سکول ڈہونگ:یہ گاؤں کا پہلا پرائیویٹ سکول ہے، اس کے مالک اور پرنسپل مرزا فضل داد سابق اوور سینئر
جناح پبلک سکول ڈہونگ: ڈاکٹر عبدالعزیز نے یہ ادارہ شروع کیا تھا، ان کے انتقال کے بعد ان کے لواحقین اس ادارے کو چلا رہے
الھجرہاسلامک سیکنڈری سکول ڈہونگ: عمر میں سب سے چھوٹا اور معیار میں سب سے بہتر یہ تعلیمی ادارہ تحصیل گوجرخان میں اپنے معیار اور بورڈ کے سالانہ نتائج کے اعتبار سے ممتاز حیثیت کا حامل اس کے سربراہ محمد محبوب عالم چوہدری انتہائی ذمہ دار، محنتی اور تعلیم یافتہ انسان ہیں،بی ایس سی /ایم ایڈ ہیں، تعداد کے لحاظ سے گاؤں کا سب سے بڑا تعلیمی ادار ہے
ویٹرنری ہسپتال: یونین کونسل میں سب سے پہلے یہاں ویٹرنری ڈسپنسری ہوا کرتی تھی، لیکن عمارت نہ ہونے اور سہولیات کی کمی کے باعث یہ ڈسپنسری بند ہو چکی ہے
بنیادی مرکز صحت ڈہونگ: اس کے انچارج ڈاکٹر محمد اشفاق احمد ہیں، کافی بڑا مرکز صحت ہے لیکن سہولیات ناکافی ہیں، فیملی کوارٹرز کھنڈرات میں تبدیل ہو چکے ہیں، اور لوگ وہاں اپنے مال مویشی باندھنے لگے ہیں، ادویات کی بھی شدید کمی ہے، عملے میں خواتین عملے کے علاوہ سید ابرار حسین شاہ، محمد سفیر وغیرہ شامل ہیں ایک سکول ہیلتھ نیوٹریشن اینڈ ہیلتھ سپروائزر بھی ہے
مساجد:گاؤں میں مساجد کی تعداد سولہ ہے ، دو مساجد میں جمعہ کی نماز ہوتی ہے
دینی مدرسے: پورے گاؤں میں ایک ہی مدرسہ جو حافظ محمد عرفان کی زیر نگرانی چل رہا ہے، اس مدرسے کانام توصیف القرآن ہے، خوش کن بات یہ ہے کہ اس مدرسے سے تقریباً بیس حافظِ قرآن فارغ التحصیل ہو چکے ہیں، اس کے علاوہ پورے علاقے سے اس مدرسے میں قرآن کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بچے اور بچیاں آتے ہیں
پرانے کنویں: ۔ بُنھا کھُوہ(سب سے پرانا کنواں ہے جو ابھی تک آباد ہے) ۔ کھُوہ راجیاں (یہ سَر کے ساتھ واقع ہے اور ابھی تک آباد ہے)، مسیتی والا کھُوہ (یہ مرکزی جامع مسجد کے ساتھ واقع ہے اور ابھی تک آباد ہے)۔ اس کے علاوہ ایک قدرتی چشمہ (چوآ) ہے جو بہت پرانا ہے اور اسی سے کَسی شروع ہوتی ہے، سارے گاؤں کی خواتین یہاں کپڑے وغیرہ دھوتی ہیں
پرانے تالاب: ۔ سر والی بَن (اس پر پیپل کا تاریخی درخت ابھی تک موجود ہے ، یہ ہسپتال سے ملحق قبرستان کے ساتھ واقع ہے، اس کا کچھ حصہ گرلز ہائی سکول میں شامل کر لیا گیا ہے) ۔ لوہاری بَن(اس کے کچھ حصے پر لوگوں نے قبضہ کر لیا ہوا ہے، اور تھوڑا سا حصہ باقی ہے)، ۔ باوا ہاشم والی بَن (خشک پڑی ہے)، سنگھر والا سَر (یہ گاؤں کے جنوب میں واقع ہے
چکیاں: پورے گاؤں میں آٹا پیسنے والی دو چکیاں ہیں، ایک چوہدری عبدالحمید جبکہ دوسری چوہدری نواب خان مرحوم کی ہے،
سیاسی صورتِ حال:سیاسی لحاظ سے محمد خان بھٹی یہاں سے الیکشن جیت جاتے ہیں،بڑا مقابلہ پی پی پی اور محمد خان بھٹی میں ہوتا ہے، عوامی تحریک اور جماعت اسلامی کابھی اچھا خاصا ووٹ بینک موجود ہے۔ محمد خان بھٹی کا تعلق مسلم لیگ سے جبکہپی پی پی پی کے امیدوار شیخ عبدالرزاق ہوتے ہیں،
برادریاں: گاؤں کے رقبے کے مالک تین بڑے قبائل گکھڑ، گجربجاڑ اور پکھڑال ہیں، گاؤں کی نمبرداریاں بھی ان ہی کے پاس ہیں اور گاؤں کے جدی وارث بھی یہی ہیں، اس کے علاوہ کشمیری، اعوان ، ملک، بھٹی، منہاس، جنجوعہ، کمہار، مستری، لوہار وغیرہ بھی موجود ہیں
ممتاز شخصیات
مولوی محمد لقمان مرحوم قیام پاکستان کے دوران خاکسار تحریک کے رکن اور پھر اپنے علاقے کے سالار تھے، ڈہونگ میں پی پی پی کے بانیان میں ان کا شمار ہوتا ہے، بڑے علمی و عملی انسان تھے
ماسٹر محمد عالم مرحوم جماعت اسلامی کے رکن تھے، عرصہ دراز تک تعلیمی خدمات انجام دیں، ان کے شاگرد دور دراز تک پھیلے ہوئے ہیں، اپنے پیشے سے مخلص ہستی تھے، یہ حافظ امام دمی کی اولاد میں سے ہیں
پروفیسر اللہ دتہ ملک(مرحوم)اے ڈی ملک کے نام سے مشہور تھے، بہت عرصہ تعلیمی میدان اور محکمہ تعلیم میں خدمات انجام دیں
ڈاکٹر محمد رفیق (مرحوم)اپنے گاؤں کی ہر دلعزیز شخصیت تھے، گاؤں کے کسی شخص کا کوئی بھی کام ہوتا تو اس کی مدد کے لیے تیار رہتے تھے، دن اور رات میں کبھی تفریق نہیں کرتے تھے، ان کی ذات سے ہمدردی اور مہمان نوازی کے حوالے سے پورے گاؤں میں بہت سے واقعات مشہور ہیں
ڈاکٹر عزیز احمد( مرحوم)محکمہ صحت میں خدمات انجام دیں، بعد میں ایک پرائیویٹ تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھی جو جناح پبلک سکول کے نام سے مشہور ہے اور آج بھی تعلیمی خدمات انجام دے رہا ہے۔
راجہ منصب دار( مرحوم)گرلز سکول اور ہسپتال بنوانے میں اہم کردار ادا کیا اور ان اداروں کے لیے جگہ واگزار کرائی
چوہدری مظہر حسین (مرحوم)مسلم لیگ کے کارکن تھے اور محمد خان بھٹی کے قابلِ اعتماد ساتھی تھے، لوگوں کے ساتھ تعاون ان کی گھٹی میں پڑا تھا، ڈی سی آفس اور مجسٹریٹ کے ریڈر رہے تھے ، بہت عوامی شخصیت تھے، ان کی وفات پر محمد خان بھٹی ایک مخلص ساتھی سے محروم ہو گئے
صوبیدار محمد سپارس مرحومڈہوک کیال کے رہائشی تھے، پول والٹ میں ایشین کلر ہولڈر تھے
حافظ محمد عرفان عوامی تحریک کے سرکردہ اور سر گرم رکن ہیں، گاؤں میں سب سے بڑا جنرل سٹور ان کا ہے، کاروباری حوالے سے بھی کافی نیک نامی کما چکے ہیں، ایک دینی مدرسہ توصیف القرآن کے نام سے بھی چلا رہے ہیں
محمد محبوب عالمماسٹر محمد عالم کے صاحبزادے ہیں، جماعت اسلامی یونین کونسل نڑالی کے امیر ہیں، ان کا پورا گھرانہ دینی، مذہبی اور تعلیم کے لحاظ سے معروف ہے، الھجرہ اسلامک سیکنڈری سکول ڈہونگ کے بانی اور پرنسپل ہیں، انہیں پورے علاقے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے
چوہدری پرویز اقبال
پی پی پی سے تعلق ہے، حبیب بینک لمیٹڈ میں خدمات انجام دینے کے بعد اب ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں، سابق وفاقی وزیر راجہ پرویز اشرف کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے ہیں
چوہدری محمد پرویزمسلم لیگ سے انکا تعلق ہے، ایک بار کونسلر بھی رہ چکے ہیں، محمد خان بھٹی کے قریبی ساتھیوں میں ان کا شمار ہوتا ہے،
احمد سعید عالمماسٹر محمد عالم (مرحوم )صاحب کے سب سے بڑے صاحبزادے ہیں،تاریخ میں ایم اے کیا ہوا ہے، گورنمنٹ بوائز ہائی سکول ڈہونگ میں سئینئر ٹیچر ہیں،علاقے کی تاریخ پر کافی عبور رکھتے ہیں، سروے کے دوران بہت سی معلومات ان ہی سے حاصل ہوئیں، اپنے پیشے سے مخلص ، دیانت دار اور جراء ت مند آدمی ہیں، گاؤں میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں
راجہ عبدالقدوسان کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے، اور اسی وجہ سے جانے جاتے ہیں
قاضی محمد الیاس محمد خان بھٹی کے قریبی ساتھیوں میں سے ہیں، سیاسی لحاظ سے کافی سرگرم رہتے ہیں
راجہ محمد زبیران کا تعلق بھی مسلم لیگ سے ہے اور محمد خان بھٹی کے دست راست سمجھے جاتے ہیں
مرزا محمد نذیر پی پی پی سے انکا تعلق ہے، سیاسی و کاروباری شخصیت ہیں، دو بار کونسلر منتخب ہو چکے ہیں۔ایک بار نائب ناظم کا الیکشن بھی لڑ چکے ہیں
چوہدری شوکت محمودیہ بھی بینک میں خدمات انجام دے چکے ہیں، اور اب ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں، ان کا تعلق پی پی پی سے ہے
ڈاکٹر طاہر محموداپنے والد ڈاکٹر محمد رفیق مرحوم کی طرح پورے گاؤں کے ہر دلعزیز شخص ہیں،دن ہو یا رات جب بھی کوئی انہیں بلانے آئے تو فوراً ساتھ چل دیتے ہیں،ڈاکٹر طاہر کہتے ہیں کہ’’ میں دہاڑی نہیں لگاتا بلکہ لوگوں کے درد کو محسوس کرتا ہوں، یہ اللہ کا خاص انعام ہے جو اس نے مجھے عطا کیا ہے، جب بھی کوئی رات گئے میرے پاس آتا ہے تو میرا رب مجھے اس کی مسیحائی کے لیے آمادہ کر دیتا ہے، میں اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں‘‘
حافظ عبدالغفورعوامی تحریک سے ان کا تعلق ہے، اور کافی سرگرم کارکن ہیں،
راجہ قربان علی محمد خان بھٹی کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتا ہے
مہربان علیمسلم لیگی کارکن ہیں اور محمد خان بھٹی کے قریبی ساتھی ہیں
یونس کیانیان کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے، مقامی سیاست میں ان کا اہم کردار ہے
صوبیدار مختار حسینان کا تعلق بھی پی پی پی سے ہے
صوفی ذوالفقار علییہ حافظ عرفان صاحب کے والد ہیں اورعلاقے کی معروف کاروباری شخصیت ہیں،
مرزا فضل داددااد پبلک سکول کے بانی و پرنسپل، ایک اچھا ادارہ چلا رہے ہیں، علاقے میں ان کا احترام کیا جاتا ہے
چوہدری جہاندادمسلم لیگ سے تعلق ہے اور اپنے گاؤں کے لوگوں کے مسائل میں دلچسپی رکھتے ہیں
بریگیڈئر عبدالغفورراجہاپنے دورِ ملازمت میں گاؤں کے بے شمار نوجوانوں کو پاک فوج میں بھرتی کرایا،اس کے علاوہ ایس سی او میں بھی انہوں نے اپنے گاؤں کے نوجوانوں کو ملازمتیں دلوائیں، لوگ ان کے بہت ممنونِ احسان ہیں اور ان کو ادب و احترام اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں،
کرنل ابوذریہ بھی ان ہی کے خاندان میں سے ہیں، اور ان کے بھی اپنے گاؤں کے لوگوں پر بہت احسانات ہیں،
راجہ سجاد کیانیان کا تعلق پی پی پی سے ہے ، کونسلر کے الیکشن میں چند ووٹوں سے ہار گئے تھے
ملک بنارس چوہان محمد خان بھٹی کے قریبی ساتھیوں میں سے ہیں
چوہدری خداداد خاناپنے عہد جوانی میں ماہر نیزہ باز و گھڑ سوار تھے، ماسٹر محمد عالم صاحب مرحوم کی کاوشوں سے جماعت اسلامی کی طرف مائل ہوئے اور رکن بن گئے، اپنے گاؤں کے بڑے زمینداروں میں ان کا شمار ہوتا ہے،لوگوں کے دکھ درد میں شریک ہوتے رہتے ہیں
نور حسین چوہانپہلے پاکستان آرمی اور پھر تعلیمی میدان میں خدمات انجام دینے کے بعد حال ہی میں ریٹائر ہوئے ہیں، ان کی سپیکنگ پاور شاندار ہے، پاکستان پیپلز پارٹی سے انکا تعلق ہے اور اے ڈی ملک صاحب مرحوم کے چھوٹے بھائی ہیں
ماسٹر فرمان علیپرانے زمانے کے ٹیچر ہیں، کافی عمر ہو چکی ہے، دور دور تک ان کے جاننے والے موجود ہیں
میاں مسعود احمدکاروباری شخصیت ہیں، میاں موٹرز کے نام سے ان کا دولتالہ میں شوروم ہے
ڈاکٹر محمد بشیرعوامی و سماجی شخصیت ہیں، لوگوں کے دکھ درد میں شریک رہتے ہیں، رعب و دبدبے والی ہستی ہیں
عابد حسین چوہدریمعروف صحافی اور ہر فن مولا ہیں، سیلف میڈ آدمی ہیں،غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے ساتھ منسلک ہیں، اپنا پرائیویٹ سکول بھی چلا رہے ہیں، بہت محبت کرنے والے انسان ہیں، پریس کے ذریعے اپنے علاقے کے مسائل اجاگر کرتے رہتے ہیں، لوگ انہیں احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں
چوہدری پرویز اقبال بینکر، رہنما پاکستان پیپلز پارٹی ڈہونگ: بہت نفیس انسان ہیں، سروے کے دوران بہت معاون بھی ثابت ہوئے، انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے گاؤں کے لوگ بہت ملنسار اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونے والے ہیں، مختلف سیاسی نظریات رکھنے کے باوجود ہم اکٹھے اٹھتے بیٹھتے ہیں، ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں، آپس میں بغض اور کینہ نہیں رکھتے، ہماری غرض اپنے گاؤں اور لوگوں کی فلاح و بہبود سے ہے، ہم نے اپنے رہنما سابق وفاقی وزیر راجہ پرویز اشرف سے بجلی کی مد میں لاکھوں کے کام کروائے ہیں، آج ڈہونگ میں کوئی گھر ایسا نہیں جہاں ہم نے بجلی فراہم نہ کی ہو، اس کے علاوہ فراہمی گیس کا منصوبہ بھی پایہ تکمیل کو پہنچنے والا ہے، ہم نے کسی امتیاز سے کام نہیں لیا، اپنے مسلم لیگی بھائیوں سے بھی ہم یہی توقع رکھتے ہیں کہ وہ بھی اس جذبے سے اپنے گاؤں اور اس کے باسیوں کے لیے کام کریں گے،راجہ جاوید اخلاص کے جو بس میں تھا انہوں نے اس گاؤں کے لیے کیا اور جو راجہ پرویز اشرف کے دائرہ اختیار میں ہے وہ کریں گے،
چوہدری محمد پرویز، رہنما مسلم لیگ ڈہونگ: بہت ہنس مکھ اور حسِ مزاح بھی رکھتے ہیں، راقم سے جب بھی ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ تم ہمیں لڑانے آئے ہو، بہت محبت کرنے والے انسان ہیں، انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں پرویز بینکر کی باتوں کی تائید کرتا ہوں، ہمیں اپنے گاؤں کے لیے کام کرنا چاہیے، کام چاہے پی پی پی والے کرائیں یا ہم فائدہ گاؤں کا ہی ہے، ہم اپنے اپنے پلیٹ فارم پر رہ کر علاقے کی ترقی کے لیے کام کر رہے ہیں، پیپلز پارٹی کی حکومت سے ہمیں صرف یہ گلہ ہے کہ بجلی اورپٹرولیم مصنوعات کو مہنگا اور سی این جی اوربجلی کی لوڈشیڈنگ میں اضافہ کر دیا ہے۔
حافط محمد عرفان قادری،
رہنما عوامی تحریک: بڑے دبنگ لہجے میں گفتگو کرتے ہیں، بہت اچھے مقرر بھی ہیں، جب بھی ملاقات ہوتی ہے بڑی شفقت اور محبت فرماتے ہیں، معتدل مزاج کے انسان ہیں، سروے کے دوران انہوں نے کافی رہنمائی اور معلومات بہم پہنچائیں، گفتگو کے دوران انہوں نے کہا کہ ایک وقت تھا کہ ہمارا گاؤں تحصیل گوجرخان میں سب سے زیادہ اناج پیدا کرنے والا علاقہ تھا، اور آج اس گاؤں کے باسی آٹا اور اناج خریدنے پر مجبور اس کے علاوہ آئل فیلڈ کے کنووں کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح بہت گہری ہو گئی ہے اور ہم پانی کی بوند بوند کو ترس گئے ہیں، اور جب کمپنی والے آگ جلاتے ہیں تو ہمارا پورا گاؤں بھٹی بن جاتا ہے، ہمارے گاؤں کے لوگوں کو نہ تو ملازمتیں ملی ہیں اور نہ ہی گاؤں کی فلاح و بہبود کے لیے آئل فیلڈ والوں نے کچھ کیا ہے، حافظ عرفان نے کہا کہ یونین کونسل نڑالی میں عوامی تحریک ایک قوت ہے، یہاں الیکشن وہ ہی جیتتا ہے جس کی ہم حمایت کریں
محبوب عالم چوہدری ، رہنما جماعت اسلامی یونین کونسل نڑالی:
معروف دینی و علمی شخصیت ماسٹر محمد عالم مرحوم کے فرزند ارجمند محمد محبوب عالم انتہائی نفیس اور باکردار انسان ہیں، ان کا گھرانہ شروع سے ہی مذہبی اور اصول پسند رہا ہے، اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے جماعت اسلامی کے لیے اپنی خدمات وقف کر دیں، انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے گاؤں میں پانی کی قلت بہت بڑا مسئلہ ہے، لاکھوں روپے کی لاگت سے بنائی گئی واٹر سپلائی سکیم بے کار پڑی ہے، پائپ لائن بھی بچھ چکی تھی، صرف کنکشن لگنا باقی تھے، پھر نجانے کیا ہوا کہ کچھ بھی نہ ہو سکا، محبوب عالم نے کہا کہ آئل فیلڈ آہدی کے جو کنویں ناکارہ ہو چکے ہیں ان کا پانی ضائع ہورہا ہے، اس پانی کو اگر ری سائکل کر کے علاقے کے مکینوں کو فراہم کیا جائے تو پورے علاقے کا ایک بہت بڑا مسئلہ حل ہو سکتا ہے
گاؤں کے مسائل:
پانی کی شدید قلت: واٹر سپلائی سکیم کی ساری موٹریں اور ٹرانسفارمر چوری ہو گئے کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی
فراہمی گیس : گاؤں والوں کی زمینوں سے تیل اور گیس نکل رہے ہیں لیکن گاؤں کو محروم رکھا گیا
پی پی ایل آہدی میں ملازمتوں کی فراہمی اس پر گاؤں والوں کا حق بھی ہے کیونکہ ان کی زمینیں آئل فیلڈ والے استعمال کر رہے ہیں
گورنمنٹ بوائز ہائی سکول کے لیے کھیل کا میدان اور سائنس لیبارٹری کا سامان اور ہال کی عمارت{jcomments on}